Tuesday, April 26, 2011

Monday, April 25, 2011

شاعری

معین اختر کا سفر

فائل فوٹو
معین اختر کی داستانِ حیات دراصل خود پاکستان ٹیلی ویژن کی لمحہ بہ لمحہ تاریخ ہے
ابھی لاہور میں مستانہ اور ببو برال کی رحلت کا غم تازہ تھا کہ کراچی سے معین اختر کے جدا ہو جانے کی افسوس ناک اطلاع موصول ہوئی۔شاید پاکستان کی فن کار برادری پر یہ برس بھاری ہے۔
معین اختر جیسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ انھوں نے سولہ برس کی عمر میں سٹیج پر اپنی پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لئے۔
ابھی کراچی میں ٹیلی ویژن شروع نہیں ہوا تھا اس لئے ریڈیو کے بعد سٹیج ہی فن کے اظہار کا ایک ذریعہ تھا۔
شو بِز کی دنیا میں یہ بات محاورے کی طرح مشہور ہے کہ شہرت کی چوٹی پہ پہنچ جانا تو آسان ہے لیکن وہاں ٹِکے رہنا بہت مشکل ہے کیونکہ شہرت و مقبولیت ایک ہر جائی محبوبہ کی طرح کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی۔ معین اختر کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس ہرجائی محبوبہ کو رام کر چُکے تھے۔
ٹیلی ویژن کی آمد کے ساتھ ہی معین اختر کا فن سٹیج کی تنگنائے سے نکل کر لوگوں کے ڈرائنگ روم تک پھیل گیا اور سنہ انیس سو ستر تک معین اختر پاکستانی ناظرین کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن گئے۔
انیس سو ستر کے انتخابات کے دوران ٹیلی ویژن پر پیش کئے جانے والے خاکوں میں معین نے اپنے کئی نئے رنگ دکھائے اور یوں ستّر کی دہائی اُن کے بامِ عروج پر پہنچنے کا زمانہ ٹھہرا۔
شو بِز کی دنیا میں یہ بات محاورے کی طرح مشہور ہے کہ شہرت کی چوٹی پہ پہنچ جانا تو آسان ہے لیکن وہاں ٹِکے رہنا بہت مشکل ہے کیونکہ شہرت و مقبولیت ایک ہر جائی محبوبہ کی طرح کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی۔ معین اختر کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس ہرجائی محبوبہ کو رام کر چُکے تھے اور سن ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں کامیابی کا جو تاج معین اختر کے سر پہ سجا دیا گیا تھا اسے معین اختر نے آخری لمحے تک گِرنے نہیں دیا۔
اُردو معین کی اپنی زبان تھی لیکن بنگالی، سندھی، میمنی اور گجراتی سے انھوں نے محض فنکارانہ ضرویات کے تحت شناسائی پیدا کی اور ان زبانوں کے لہجے اور تلفظ پر ایسا عبور حاصل کیا کہ اہلِ زبان کو بھی انگشت بدنداں کر دیا۔
معین اختر کی داستانِ حیات ایک طرح سے پاکستان ٹیلی ویژن کی اپنی جیون کتھا بھی ہے۔ دونوں ایک ساتھ منظرِ عام پر آئے۔ دونوں نے اکٹھے مقبولیت اور شہرت کا سفر کیا اور دونوں کا نام دنیا بھر میں آباد پاکستانیوں تک ایک ساتھ پہنچا اور پھر میڈیا کے بدلتے ہوئے عالمی منظر نے جو نئے چیلنج پیش کئے، اُن سے بھی دونوں ایک ساتھ نبرد آزما ہوئے۔
نقالی کی صلاحیت کو اداکاری کا سب سے پہلا مرحلہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اداکاری کی معراج نہیں ہے۔ یہ سبق معین اختر نے اپنے کیرئر کی ابتداء ہی میں سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ نقالی کے فن میں ید طولٰی حاصل کرنے کے باوجود اس نے خود کو اس مہارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر اداکاری کے تخلیقی جوہر تک رسائی حاصل کی۔
معین اختر کی داستانِ حیات ایک طرح سے پاکستان ٹیلی ویژن کی اپنی جیون کتھا بھی ہے۔ دونوں ایک ساتھ منظرِ عام پر آئے۔ دونوں نے اکٹھے مقبولیت اور شہرت کا سفر کیا اور دونوں کا نام دنیا بھر میں آباد پاکستانیوں تک ایک ساتھ پہنچا اور پھر میڈیا کے بدلتے ہوئے عالمی منظر نے جو نئے چیلنج پیش کئے، اُن سے بھی دونوں ایک ساتھ نبرد آزما ہوئے۔
مختلف ڈراموں میں منچلے نوجوان سے لیکر ایک سنکی بڈ ّھے تک کے جو کردار انھوں نے ادا کئے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ معین اختر کا فن ایک نقّال کی محدود چاردیواری توڑ کر فن کے وسیع و عریض میدان میں آنکلا ہے اور اس میدان میں مِس روزی کا کردار ایک ایسا چیلنج ثابت ہوا جسے قبول کر کے معین اختر نے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں سے بھی داد وصول کر لی۔ جس کردار کو ڈسٹن ہاف مین جیسا نابغہء روزگار اداکار بڑی سکرین پر ادا کر چکا ہو، اور دنیا بھر سے اسکی داد بھی بٹور چکا ہو، اُسے پھر سے ٹیلی ویژن پر ادا کرنا ’ایں سعادت بزورِ بازو نیست‘
معین اختر نے اگرچہ کئی بار بھارت جا کر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے ہوتے تو شاید بمبئی کی تماشہ گاہ بھی معین اختر کے سِحر سے نہ بچ سکتی لیکن بھارتی فنکاروں پر دھاک بٹھانے کے لئے معین اختر کو پھر بھی ایک راستہ مل گیا، دوبئی کا راستہ۔
معین اختر نے مشرقِ وسطٰی میں کئی بار شو منعقد کئے اور برِصغیر کے سب سے بڑے ادا کار دلیپ کمار تک کو اپنا فین بنا لیا۔ دلیپ کمار نے فاطمی فاؤنڈیشن کے لئے جب بھی بین الاقوامی شو منعقد کئے، کمپئر کے طور پر معین اختر کو مدعو کیا اور معین کسی معاوضے کی پروا کئے بغیر خون کے عطیات جمع کرنے والی اس انجمن کا خیراتی کام پوری دلجمی سے کرتے رہے۔
اردو کے علاوہ انھیں پنجابی، پشتو، سندھی، گجراتی، بنگالی اور میمنی لہجوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا
اِن شوز کے دوران معین اختر نے جس انداز سے دلیپ کمار کو متعارف کرایا وہ اسی کا حصّہ تھا۔
اسی سلسلے کے ایک ابتدائی شو میں دلیپ کمار کے سٹیج پر آنے سے پہلے معین اختر نے مائیکرو فون منہ کے بالکل قریب لا کر دلیپ کمار کی آواز میں ان کی ایک فلم کے مکالمے بولنے شروع کر دیئے۔ حاضرین تو خیر حیران ہوئے ہی، خود دلیپ کمار بھی ششد رہ گئے اور پھر دونوں کی دوستی کا ایسا آغاز ہوا جو آخر تک جاری رہا۔
اُردو معین کی اپنی زبان تھی لیکن بنگالی، سندھی، میمنی اور گجراتی سے انھوں نے محض فنکارانہ ضرویات کے تحت شناسائی پیدا کی اور ان زبانوں کے لہجے اور تلفظ پر ایسا عبور حاصل کیا کہ اہلِ زبان کو بھی انگشت بدنداں کر دیا۔ بعد میں انھوں نے پشتو اور پنجابی کے لہجوں پر بھی کام کیا اور جب جب موقعہ مِلا اِن لہجوں میں بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ بھی کیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے بلیک اینڈ وائیٹ زمانے سے لیکر آج کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک معین اختر ہر دور میں ٹی وی کے ساتھ رہے اور اگر آج اُن کے تمام کام کو زمانی ترتیب میں مُدّون کیا جائے تو خود پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک تاریخ تیار ہو جائے گی۔

Sunday, April 24, 2011

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

آئی فون:صارفین کی خفیہ ریکارڈنگ

source.bbc urdu 

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ایپل کمپنی کے آئی فونز اور تھری جی آئی پیڈز صارفین کی نقل و حرکت کو خفیہ طور پر ریکارڈ اور محفوظ کرتے ہیں۔
سکیورٹی کے ماہر ایلن اور پیٹ وورڈن کے مطابق نقل و حرکت کی یہ ریکارڈنگ آئی فونز اور آئی پیڈز میں خفیہ رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے پاس صحیح سافٹ ویئر ہے تو وہ یہ معلوم کر سکتا ہے کہ صارف کب کہاں گیا تھا۔
ایپل کمپنی نے ابھی تک اس انکشاف پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم سکیورٹی ماہرین کے مطابق یہ ثبوت نہیں ملا کہ ایپل کمپنی نقل و حرکت کی ان معلومات کو اپ لوڈ یا استعمال کر رہی ہے۔
سکیورٹی ماہرین کا یہ انکشاف آئی فون صارفین کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا کیونکہ فون استعمال کرتے وقت ان کو یہ قطعی علم نہیں ہوتا کہ ان کی معلومات ریکارڈ کی جارہی ہیں۔
تاہم آئی فون میں نقل و حرکت کی ریکارڈنگ کے حوالے استعمال کرنے والوں کو صاف گوئی سے نہیں بتایا گیا لیکن اس کا ذکر استعمال کرنے کی شرائط میں کیا گیا ہے۔
’ہم ممکنہ طور پر نوکری، زبان، زپ کوڈ، ایریا کوڈ، محلِ وقوع اور ٹائم زون جہاں پر ایپل کی مصنوعات استعمال کی جا رہی ہیں جیسی معلومات اکٹھی کریں گے تاکہ ہم بہتر طور پر صارف کو سمجھ سکیں اور اپنی مصنوعات، سروس اور اشتہارات کو بہتر بنا سکیں۔‘
ٹیکنالوجی کی ویب سائٹ او رائلی ریڈار پر وورڈن اور ایلن نے لکھا ہے کہ ان کو نہیں معلوم کہ آئی فونز اور آئی پیڈز یہ معلومات کیوں اکٹھی کرتے ہیں لیکن یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ایسی دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے۔
سکیورٹی کمپنی سوفوس میں ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ گراہم نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بات کے امکانات کم ہیں کہ ایپل اس معلومات کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ ’لیکن اس سے یہ ثابت ہوا کہ ’استعمال کی شرائط‘ پڑھنا کتنا ضروری ہے۔‘
دوسری جانب ایپل کمپنی کو آئی فونز کی فروخت میں توقعات سے بھی زیادہ منافع ہوا ہے۔
رواس سال کے پہلی تین ماہ میں آئی فونز کی فروخت میں پچھلے سال کے پہلے تین ماہ کے مقابلے میں 113 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

Thursday, April 21, 2011

تازہ ترین

کراچی کے علاقے گھاس منڈی میں دھماکا 16 افراد ہلاک
کراچی  کے علاقے گھاس منڈی کے قریب واقع رمی کلب میں دھماکے سے 16افراد ہلاک جبکہ 35 سے زائد زخمی ہوگئے۔ کچھ زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جاتی ہے جس سے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ جس جگہ دھماکا ہوا ہے وہ رمی کلب ہے جسے ایشیاء کا سب سے بڑا رمی کلب کہا جاتا ہے۔ دھماکے سے کلب کی بجلی منقطع ہوگئی۔ اس غیر قانونی رمی کلب پر متعدد مرتبہ پولیس چھاپے بھی مارتی رہی ہے۔


زخمیوں کو سول اسپتال، جناح اسپتال ، لیاری اسپتال اور دیگر اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔متعدد افراد کے جسم چھرے لگنے کے سبب زخمی ہوئے ۔ کچھ مریضوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں ۔ زخمیوں میں سے بعض کا فوری آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئی ہیں ۔ گھاس منڈی پرانی کراچی کا گنجان آباد علاقہ ہے جو لیاری سے متصل ہے۔


دھماکے کے فوری بعد لوگوں کی بڑی تعداد جائے حادثہ پر پہنچ گئی جس کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات پیش آئیں۔پولیس نے لوگوں کومنتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج بھی کیا۔ جائے حادثہ کے آس پاس بہت سی رہائشی عمارتیں، فلیٹس اور تنگ گلیاں واقع ہیں، اس سبب علاقے کے لوگوں میں خوف و حراس پھیلا ہوا ہے۔


رمی کلب سے تمام لاشوں اور زخمیوں کو باہر نکال لیا گیا ہے ۔ جائے وقوع پر فوری طور پر پولیس اوررینجرز کی بھاری نفری پہنچ گئی جس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ تاہم پولیس کی جانب سے دھماکے کی نوعیت کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا جارہا۔


دھماکے کے وقت رمی کلب میں لوگوں کا رش تھا ۔ کلب پر حالیہ دنوں میں بھی کئی چھاپے مارے گئے اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ کلب میں شام سے رات گئے تک گیمز کی آڑ میں جوا کھیلا جاتا تھا ۔کلب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں ہر شام لاکھوں روپے کا جوا کھیلا جاتا تھا۔ عینی شاہدین کا اندازہ ہے کہ دھماکے کے وقت رمی کلب میں تین ،چار سو لوگ موجود تھے۔


 بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہے نا ہی خودکش دھماکا ہے بلکہ اسے باقاعدہ پلان کرکے دھماکا کیا گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے کہ دھماکا کراچی میں جاری گینگ وار کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ لیاری میں ایک عرصے سے گینگ
وار جاری ہے۔

شاعری





Monday, April 18, 2011

source:voa

جان بینر کی اسلام آباد میں گیلانی سے ملاقات
امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینر نے پیر کی سہ پہیراسلام آباد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی ہے۔ ملا قات میں امریکی سفیر کے کیمرون منٹر کے علاوہ دیگر اہم حکام بھی شامل تھے۔ اسپیکر جان بینر اتوار کی شب پاکستان پہنچے اور اپنے مختصر قیام میں وہ دیگر پاکستانی رہنماؤں سے بھی بات کریں گے۔ ملاقات کی مذید تفصیل کا سرکاری طور پر کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے
کراچی: گولی لگنےکےواقعات میں نو افراد ہلاک۔
پاکستانی پولیس کا کہنا ہےکہ ملکی معیشت کی شہ رگ کراچی میں شوٹنگ اوراغوا کےواقعات میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
پولیس نے بتایا ہے کہ ہفتے کےدِٕن کے اِن پُرتشدد واقعات میں متعددہلاک شدگان سیاسی کارکن تھے۔  حکام نے اِن واقعات کو ’ٹارگٹ کلنگز‘ قراردیا ہے، تاہم  اصل محرکات اورملوث افراد کی شناخت  کا معاملہ واضح نہیں۔  اُن میں سے چند لوگ اُس وقت ہلاک ہوئےجب موٹر سائیکلوں پرسوار مسلح افراد نے اُن پر گولیاں چلادیں۔
 وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے کراچی میں قانون کا نفاذ کرنے والے اہل کاروں کوگشت میں اضافہ کرنے اور حملہ آروں کو موقع پر گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

الطاف حسین دہشت گرد ہے ،بریٹش پارلیمنٹ کے رکن جارج گالو وے کا انکشاف

بریٹش پارلیمینٹ کے  رکن جارج گالو وے  george galloway نے پارلیمینٹ کے اجلاس میں دوران بحث انکشاف کیا ہے کہ
 الطاف حسین برطانوی شہری ہو کر یہاں سے ایک موبائل فون پر دہشت گردی کی ہدایات جاری کرتا ہے
 وہ یہاں بیٹھ کر پاکستان میں موت کا کھیل کھیل رہا ہے  اسکو یہ اجازت کہاں سے ملی اب وقت آ گیا ہے کہ
 اسکو پاکستان کے حوالے کر دیںا چاہیے ..دیکھئے ویڈیو رپورٹ 

George Galloway Blasts MQM in the British Parliament - 1

George Galloway Blasts MQM in the British Parliament - 2

قومی زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک

پروفیسر سید اسراربخاری ـ source:nawai waqt 
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو اردو کو اس کی قومی زبان قرار دیا گیا۔ جس کا مطلب تو یہ تھا کہ آج ہمارا تمام تر کاروبار حکومت اردو زبان کو وسیلہ اظہار بناتا‘ انگریزی زبان کو بطور ایک زبان کے ضرور سیکھا جاتا مگر اسے غلامی اور احساس برتری کی علامت نہ بنایا جاتا کہ آج یہ حالت ہو گئی ہے اگر ایک فاضل شخص کوثر و تسنیم سے دھلی اردو میں بات کرتا ہے تو اس کی گفتگو کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جو ایک غلط انگریزی بولنے والے کو حاصل ہوتا ہے۔ حصول معلومات کےلئے کسی ”بدیسی زبان“ کو سیکھنا استعمال کرنا اچھی بات ہے لیکن اسے اپنی پہچان اور شناخت بنا لینا احساس ”کم مائیگی“ ہے جو قومی سطح پر غلامانہ اثرات کا احیا کر رہاہے اور قومی زبان کو داخل دفتر کرنے کا سبب بنا ہے۔ ہمارے دفاتر، تعلیمی اداروں، سرکاری دستاویزات، سبھی کچھ کی زبان اردو ہونی چاہئے جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہے اور اپنی حیثیت من حیث القوم کھو بیٹھے ہیں، ہمارے سامنے دیگر ممالک کی مثالیں ہیں جن کی حکومتیں اور حکمران اپنی قومی زبان ہی کو ذریعہ اظہار و تحریر بناتے ہیں اگر سعودی عرب یا چین کا سربراہ بیرونی دورے پر جائے تو انگریزی جاننے کے باوجود وہ ترجمان کے ذریعے اپنا موقف بیان کرتے ہیں اور خود اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہیں مگر ہمارے حکمران جو 63 برس گزر جانے کے باوجود احساس کمتری سے نہیں نکلے بیرونی دوروں میں انگریزی زبان بولنا قابل فخر سمجھتے ہیں اور اپنی زبان کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اردو ایک مکمل اور شستہ وشائستہ زبان ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ اس کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا، آج جو سکول اردو میں پڑھاتے ہیں ان کی اہمیت و حیثیت انگلش میڈیم سکولوں کے مقابلے میں پرپشہ کے برابر بھی نہیں اور ہمارے لوگوں کو بھی یہ نفسیاتی عارضہ لاحق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی میں بات کرتے ہوئے سنتے ہیں تو ان کا سر شرم سے جھکنے کے بجائے فخر سے بلند ہو جاتا ہے ایک قومی سطح کا احساس کمتری ہے جس کی روز افزوں آبیاری کی جاتی ہے۔ ہمارے مطالبات میں ہر چیز شامل ہوتی ہے لیکن معدودے چند لوگ ہیں جو اردو کو اس کا صحیح مقام دلوانے کےلئے کوشاں ہیں مگر ان کی آواز معاشرے میں انگریزی کے شور میں طوطی کی طرح گم ہو جاتی ہے اور اردو کا طوطئیِ شکر مقال اپنا جیسا منہ لے کر رہ جاتا ہے یہ نہیں کہ کوئی انجمن یا افراد اس سلسلے میں پیش پیش نہیں لیکن عوامی شرکت اور دلچسپی سے ہی ایک تحریک چلائی جا سکتی ہے جو قومی زبان اردو کو پاکستان کی پہچان کا حصہ بنا سکتی ہے۔ یہ ایک قابل توجہ بات ہے کہ اردو کو اس کا جائز مقام دینے سے ہم عربی اور فارسی سے بھی مربوط ہو سکتے ہیں جن کو ہم نے کب کا ترک کر رکھا ہے اردو میں عربی سے جلال اور فارسی سے جو جمال پیدا ہوا وہ اس زبان کی وقعت کو اور بڑھا دیتا ہے۔ ہمیں اپنی زبان کا پندار حاصل ہونا چاہئے جیسے داغ نے کہا تھا
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں سکہ ہماری زباں کا ہے
اور اب تو اردو زبان نے علم و ادب کے میدان میں اتنا سفر طے کر لیا ہے کہ بسا اوقات جو بات مادری زبان میں نہیں کہہ پاتے اردو میں بااحسن طریق بیان کر لیتے ہیں، گویا اس کا دائرہ اظہار اور اس کا لغوی و معنوی حجم اس قدر بڑھ ہو چکا ہے کہ یہ ہر باریک تر خیال کو پیرہنِ اظہار عطا کر سکتی ہے، ایک عالم دین کی نعت کا شعر ملاحظہ ہو
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
ان چند سطور میں تو ہم اردو جو ہماری قومی زبان ہے اس کی وسعت و گہرائی کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جاتے جاتے یہ کہتے چلیں کہ یہ ہمارے لئے مقام شرم ہے کہ ہم اور ہمارے حکمران قومی زبان سے اتنے لاتعلق اور غافل کیوں ہیں۔؟

Sunday, April 17, 2011

دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر

یہ کمپیوٹر ایک دن میں اتنا حساب کتاب کرسکتا ہے جس کے لیے ایک کھرب بیس ارب لوگوں کو اپنے کیلکولیٹرز کے ساتھ پچاس سال درکار ہوں گے
source.voa
مریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اگلے سال ایک نیا سپر کمپیوٹر ’ٹائی ٹن‘ متعارف کرارہے ہیں جو دنیا کا سب سے تیز رفتار کمپیوٹر ہوگا۔ اس وقت دنیا کا تیز ترین سپر کمپیوٹر چین کے پاس ہے،جسے 2010ء میں  تیز ترین سپر کمپیوٹر بنانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
جس رفتار سے ڈیجٹل ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے، اس کے پیش نظر ماہرین کا کہناہے کہ چند سال کے بعد آج کے  بڑے بڑے سپر کمپیوٹروں کے مقابلے میں عام لیپ ٹاپ زیادہ تیز رفتار ہوں گے اور ان پر آج کے سپر کمپیوٹروں کی نسبت زیادہ ڈیٹا پراسسنگ کی جاسکے گی۔
سپر کمپیوٹر پہلے پہل 1960ء کے عشرے میں کنٹرول ڈیٹا کارپوریشن نے  متعارف کرائےتھے۔ تاہم 1980 کی دہائی میں کئی اور کمپنیاں بھی اس  میدان میں آگئیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دور  میں استعمال ہونے والے سپر کمپیوٹروں سے آج کے موبائل فونز کے مائیکرو پراسیسرز زیادہ تیز رفتار ہیں۔
 سائنس کی اصطلاح میں سپر کمپیوٹر  اس ڈیجیٹل مشین کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے انتہائی تیزی کے ساتھ اعدادوشمار اور معلومات کی پراسسنگ کی جاسکے۔ تیز رفتار پراسسنگ کی زیادہ تر ضرورت جوہری سائنس، موسم کی پیش گوئیوں ، دفاع اور خلائی  سائنس کے شعبوں میں پڑتی ہے۔تاہم اب زندگی کی تیزرفتاری نے زندگی کےاکثر شعبوں کو سپر کمپیوٹر کا محتاج بنا دیا ہے۔
امریکہ میں شاید ہی کوئی یونیورسٹی ایسی ہو جہاں سپر کمپیوٹر نصب نہ ہوں۔  تعلیمی اداروں کے سپر کمپیوٹرز سائنسی تجربات  کے تجزیوں اور تحقیقی کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
سپر کمپیوٹر عام کمپیوٹر سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ چند عشرے قبل تک ایک سپر کمپیوٹر کی تنصیب کے لیے بہت بڑی عمارت درکار ہوتی تھی اور وہ بہت  وزنی ہوتا تھا۔  تاہم جیسے جیسے ڈیجٹل آلات کے سائز مختصر ہورہے ہیں، کمپیوٹر ز کا جحم بھی کم ہوتا جارہاہے۔ اس کااندازہ ا س چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج کل آپ کے گھر میں کسی میز پر جو ایک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر رکھا ہوا ہے، اس کی قوت اور صلاحت  اور رفتار ، 80 کے عشرے کے ان سپرکمپیوٹروں سے کہیں بہتر ہے جنہیں بڑے بڑے کمروں میں نصب کیا گیاتھا۔
عام کمپیوٹر میں پراسسنگ کے لیے ایک مائیکروپراسیسر ہوتاہے۔ آج کے اکثر کمپیوٹروں میں ایسے مائیکروپراسیسر نصب ہوتے ہیں جن کی کم ازکم دو، یا چار یا اس سے زیادہ پرتیں ہوتیں ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں ایک وقت میں کمپیوٹر میں ایک سے زیادہ  مائیکروپراسیسر کام کررہے ہوتے ہیں۔ جب کہ سپر کمپیوٹروں میں انتہائی تیزرفتار مائیکروپراسیسرز کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں ہوتی ہے۔
ان دنوں امریکی سائنس دان جس سپر کمپیوٹر کے ڈائزئن پر کام کررہے ہیں ، اس میں یہ صلاحیت موجود ہوگی کہ وہ ایک  سیکنڈ میں ریاضی کے  دولاکھ کھرب سوال حل کرسکے۔
ماہرین کا کہناہے کہ اس وقت چین میں نصب دنیا کا تیزترین سپر کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں ریاضی کے 25 ہزار کھرب سوال حل کرسکتا ہے۔
 ایک عام کیلکولیٹر کمپیوٹر کی سادہ ترین ابتدائی شکل ہے جس پر ایک وقت میں صرف ایک سوال حل کرکیا جاسکتا ہے۔  جب کہ عام کمپیوٹر پر آپ ایک ساتھ درجنوں فائلیں کھول کر ان پر بیک وقت  کام کرسکتے ہیں۔
اگر سپر کمپیوٹر کی کارکردگی کو انسانی صلاحیت کے پیمانے پر جانچا جائے تو نئے  سپر کمپیوٹر کی صلاحیت کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک دن میں اعدادوشمار کا اتنا کام کرسکتا ہے جسے بصورت دیگر ایک کھرب 20 ارب افراد  ، جن کے پاس اپنے اپنے کیلکولیٹر ہوں، 50 سال میں سرانجام دیں  گے۔
دس کروڑ ڈالر مالیت کا یہ سپر کمپیوٹر امریکہ کے محکمہ توانائی کے لیے تیار کیا جارہاہے جسے ریاست ٹینی سی کے شہر اوک رج کی نیشنل لیبارٹری میں نصب کیاجائے گا۔
اگلے سال امریکہ میں صرف ’ ٹائی ٹن‘ سپر کمپیوٹر کا ہی افتتاح نہیں ہوگا بلکہ آئی بی ایم کمپنی بھی کیلی فورنیا کی قومی لیبارٹری میں ایک نیا سپر کمپیوٹر نصب کررہی ہے۔
کمپیوٹر کے شعبے میں کئی عشروں تک امریکہ کو واضح برتری حاصل رہی ہے ۔ مگر 2010ء میں چین نے  امریکہ سے یہ اعزاز چھین لیاتھا۔ اگرچہ اگلے سال یہ اعزاز دوبارہ امریکہ کو مل جائے گا ،لیکن ماہرین کا کہناہے کہ چین اور جاپان میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کاشعبہ جس تیز رفتاری سے ترقی کررہاہے  اس کے پیش نظر امریکہ کے لیے اپنے اس اعزاز کا دفاع آسان نہیں ہوگا۔

Saturday, April 16, 2011

اندر کا  موسم  ..حسن وارثی
دور حاضرہ کے حالات و واقعات نے پوری دنیا کو بے چینی اور اداسی کا گھر بنا دیا ہے،مسکراہٹیں دبی دبی سی ہیں 
 آنکھیں بے نور ہیں چہروں پر خزاں رقص کرتی نذر آتی ہے  .ہر خاص و عام ایک عجیب سی ہیجانی کیفیت کاشکار ہو چکا ہےکسی کو دولت و شہرت  لے ڈوبی تو کسی کو غربت نے ڈس لیا .قتل و غارت معاشی بدحالی ،بے روزگاری ،قدرتی آفات،
جنگ و جدل نے انسان کی زندگی سے چین و سکوں کا لفظ غائب ہی کر دیا ہے .میں نے جب سے صحافت کی ہاتھوں میں 
ہاتھ دیا ہے لمحہ بہ لمحہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے وابستگی گہری ہوتی  جا رہی ہے جب بھی قلم اٹھایا کسی 
مثبت پہلو پر مثبت سوچ کی ساتھ لکھنے کی کوشش کی .مگر ارد گرد دکھوں ،بے بسی اور مایوسی کا اک باڑ سا بندھ چکا ہے آے دن کوئی افسوس ناک واقعہ ،داستان یا کوئی منفی کردار اس قید سے نکلنے ہی نہیں دیتا الغرض مایوس کن موضوعات بکھرے پڑے ہیں جن پر دن رات بھی لکھا جاۓ تو کم ہے .تحریروں میں ان پہلوؤں کی نشاندہی کرنے کا مقصد بے حس حکمران کو اس کی غلطیوں کا احساس دلانا اور بے شعور عوام کو اپنا حق لینے کا شعور دینا ہوتا ہے لکن اب ایسا لگتا ہے جیسے الفاظ میں اثر نہ رہا ہو یا دونوں طبقوں نے ٹھان لی جیسا چلتا ہے چلنے دو ..اب تو کچھ لوگ بھی میڈیا کو قصور وار ٹھہرا تے ہیں کہ جب سے میڈیا عام ہوا لوگوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا   یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے میڈیا میں آے دن سیاسی اور معاشی مذاکروں نے 
بیچینی کی فضا بنا دی ہے ٹی وی  جو انٹر ٹینمنٹ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ٹینشن کا مرکز بن کر رہ گیا ..مگر یہاں ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کیا ماضی میں بھی حالات اس قدر  خراب ہوتے رہے ہیں ..اور چونکہ میڈیا اس قدر عام نہ تھا لوگ بےخبر رهتے اور سکوں سے جیتے ..
کافی غور و فکر کے بعد اس نکتہ پر توجہ آ رکی  کہ پہلے کے دور میں اس قدر بے حسی اور نفسا نفسی نہ تھی پہلے کا انسان آج کے انسان سے بہت مختلف تھا طرز زندگی میں سادگی عام تھی انسان تھوڑے پر راضی تھا ،ہنسی مذاق ہوتا تھا .دکھ سکھ سانجھے تھے میل جول عام تھا .آج انسان نے خود کو ایک کمرے تک محدود کر لیا ہے .آجکل ہر چیز میں تکلف اور بناوٹ کو روایات کا حصہ مانلیا گیا ہے اس نمائشی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے  انسان کچھ بھی کرنے کو تیار ہے پس معلوم ہوتا ہے انسان نے خود کو خود ہی پریشان کر رکھا ہے .
°°ایک سائنسی تحقیق کے مطابق آج کا انسان اس نفسا نفسی سے نکنا چاہتا ہے مگر وہ ان نمائشی زنجیروں میں بری طرح جھکڑ چکا ہے 
آج کا انسان بھی سادگی میں سکوں کا متلاشی ہے  ایک سروے کی مطابق دیہاتوں میں زندگی گزارنے والے لوگ ماڈرن شہروں میں جدید سہولتوں سے آراستہ پر تعیش زندگی گزارنے والوں سے زیادہ خوش اور مطمئن ہیں °° 
  آج مایوسی اور نکتہ چینی کی باڑ پھلانگ کر ایک الگ موضوع پر لکھ کر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ایک تو ان لوگوں کا شکوہ دور ہو جاۓ جو موجودہ ڈیپریشن کا ذمہ دار میڈیا والوں کو ٹھہراتے ہیں اور دوسرا شکار یہ کہ شاید کہ اپنے بھی اندر کا موسم کچھ بدل جاۓ  اب ہر انسان کو اپنی زندگی اور حالات کا بہتر اندازہ ہوتا ہے ہر کوئی اپنی سی کوشش کر کے حالات کی کروٹ بدل سکتا ہے اب ہماری  طرح اپنوں کیخاطر دن رات خون جلانے والے تو قلم کاغذ پی دل کی حالت لکھ کر اندر کا موسم بدل لیتے ہیں قارئین کی نذر یہ گزارش ہے اگر آپ سمجھتے ہیں آپکی زندگی بھی کسی نمائشی خول میں قید ہے تو ان خود ساختہ رکاوٹوں کو توڑ کر سادگی اپنا لیں محبت کا پر چار کریں لوگوں میں گھل مل 
جائیں دکھی انسانیت کے دکھ بانٹ لیں اگر آپ اس بات کی گارنٹی دیں تو یقین کر لیں کسی کا دکھ دور کر کے جو خوشی آپکو حاصل ہو گی ایسی حقیقی اور سچی خوشی شاید ہی  کبھی آپکو نصیب ہوئی ہو ،میری نظر میں ڈیپریشن .مایوسی کا اس سی بہتر  نسخہ شاید  کوئی نہیں..
جل کر نفرت سے بغاوت سے
 کیا ملا ہم کو عداوت سے
 زندگی سفر ہے پل بھر کا
 جیو امن سے محبت سے

ا

گم شدہ یادوں کی واپسی

کمپیوٹر کی طرح دماغ کا بھی ایک قدرتی سرچ انجن ہوتا ہے جو ان یادوں کو، جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے، لاشعور کے ڈیٹا بیس سے ڈھونڈتا ہے ۔ مگر جس طرح کمپیوٹر کی اس ہارڈ ڈسک سے، جس پر لاکھوں فائلیں محفوظ ہوں، ضروری معلومات کی موجودگی کے بغیر کوئی خاص فائل ڈھونڈنا دشوار ہوتاہے، اسی طرح اکثر پرانی یادوں کے معاملے میں ہمارا قدرتی سرچ انجن بھی بے بس ہوجاتا ہے۔
گرکوئی  آپ سے یہ پوچھے کہ جب آپ کی عمر چارسال پانچ ماہ اور آٹھ دن تھی، اس روز آپ نے دوپہر میں کیا کھایاتھا؟ تو یقنناً آپ کا جواب ہوگا کہ معلوم نہیں۔
یہ جواب بالکل فطری ہے کیونکہ بہت پرانی یاد کو اپنی  تمام تر جزیات کے ساتھ ذہن میں اس طرح  تازہ کرنا ، جیسے وہ کچھ دیر پہلے کا واقعہ ہو، تقریباً ناممکن ہے۔ تاہم اب سائنس دانوں کا کہناہے کہ وہ اس ناممکن کو ممکن بنانے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔
گویا وہ دن قریب آرہاہے جب آپ یہ فخر سے یہ کہہ سکیں گے کہ مجھے یاد ہے ذراذرا۔
وقت گذرنے کے ساتھ ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں، مثلاًپرانے ساتھیوں کے نام ، ان کے چہرے، کئی پرانی چیزیں اور وہ سارے واقعات جو وقت گذرنے کے بعد ہمارے لیے غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ بعض دانا تو بھولنے کے عمل کو وقت کا مرہم کہتے ہیں کیونکہ  تلخ یادیں اگر تازہ رہیں توزندگی جہنم بن جاتی ہے۔
یادوں کے معاملے میں انسانی دماغ ایک خودکار قدرتی نظام کے تحت کام کرتا ہے۔  تازہ ترین واقعات ہماری یاداشت کے اس حصے میں محفوظ ہوجاتے ہیں جس کاتعلق ’ قریبی یاداشت‘ سے ہوتا ہے۔ جب تک ہم  ان واقعات کو دوہراتے رہتے ہیں ، وہ اسی حصے میں پڑے رہتے ہیں ، لیکن جب انہیں نطر انداز کردیتے ہیں تو دماغ  انہیں پرانی یادوں کے حصے میں منتقل کردیتا ہے۔ گویا یہ نظام کمپبوٹر سے جیسا ہے۔ کمپیوٹر بھی ہروقت استعمال ہونے والے ڈیٹا کواپنے کیش یا قریبی یاداشت میں رکھتاہے اور باقی چیزیں ہارڈ ڈسک میں بھیج دیتاہے۔
نیویارک کے ڈاؤن سٹیٹ میڈیکل سینٹر کے دماغی امراض کے ایک ماہر ٹڈ سکٹور کہتے ہیں  کہ وقت گذرنے کے ساتھ پرانی یادیں دماغ سے مٹ نہیں جاتیں، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ وہ اتنی گہرائی میں چلی جاتی ہیں کہ انہیں وہاں سے نکال کر شعور میں لانا عام حالات میں ممکن نہیں رہتا۔
اچھی یاداشت انسان کی اچھی کارکردگی کی ضامن ہوتی ہے۔ بعض ذہنی مشقوں کے ذریعے یاداشت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ چائے اور کافی بھی وقتی طور پر دماغ کو مستعد بنانے اور چیزیں ذہین نشین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تمباکو کی نکوٹین بھی سوچ بچار کا عمل بہتر بناتی ہے۔ حکیم یاداشت کے لیے روزانہ بادام کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسی طرح میڈیکل اسٹوروں پر یاداشت بہتر بنانے کی دوائیں بھی ملتی ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہناہے کہ ان کا اثر بہت معمولی اور وقتی ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ یاداشت کو بہتر بنا کرکئی ذہنی امراض اور معاشرتی مسائل پرقابو پایا جاسکتا ہے۔
سائنس دان  کئی برسوں سے کوئی ایسی دوا ڈھونڈنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس کے استعمال سے سارا ماضی ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے آجائے۔
ماہرین کا کہناہےکہ کمپیوٹر کی طرح دماغ کا بھی ایک قدرتی سرچ انجن ہوتا ہے جو ان یادوں کو، جن کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے، لاشعور کے ڈیٹا بیس سے ڈھونڈتا ہے ۔ مگر جس طرح کمپیوٹر کی اس ہارڈ ڈسک سے، جس پر لاکھوں فائلیں محفوظ ہوں، ضروری معلومات کی موجودگی  کے بغیر کوئی خاص فائل ڈھونڈنا دشوار ہوتاہے، اسی طرح اکثر پرانی یادوں کے معاملے میں ہمارا قدرتی سرچ انجن  بھی بے بس ہوجاتا ہے۔
جریدے سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہےنیویارک اور اسرائیل میں اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق کے دوران ماہرین کو ایک ایسا  مرکب ڈھونڈنے میں کامیابی مل گئی ہے جس کے ذریعے  پرانی یادوں تک باآسانی رسائی حاصل ہوسکتی ہے اور اس کا اثر دیر تک قائم رہتاہے۔ اس نئے مرکب کا نام پی کےایم زیٹا ہے۔
ماہرین نے زیٹا  کو چوہوں پر آزمایا اور اس کےنتائج  انتہائی حوصلہ افزا رہے۔  چوہوں کو نئے مرکب کے انجکشن دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی دماغی ساخت انسانی دماغ کا ایک ابتدائی نمونہ ہے۔
ڈاؤن سٹیٹ میڈیکل سینٹر  کے ماہر ٹڈ سیکٹور کا کہناہے کہ جب پی کے ایم زیٹا کے انجکشن چوہوں کو لگائے گئے تو انہیں وہ چیزیں یاد آگئیں جو چھ روز پہلے انہیں سکھائی گئی تھیں۔
سیکٹور کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہمارے لیے چھ دنوں کی کوئی اہمیت نہ ہو مگر چوہوں کے لیے، جن کی طبی عمر بہت کم ہوتی ہے، چھ دن  ایک طویل عرصہ ہے۔
تحقیق میں شریک اسرائیل کے ویز من انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ایک ماہر یادین دودائی  کا کہناہے کہ نئی دوا یاداشت کی سطح میں دیرپا اضافہ کرتی ہے ، تاہم  فی الحال یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اس سے پرانی یادیں ڈرامائی حد تک تازہ ہوجائیں گی۔ 
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ایک نیورالو جسٹ جم مک گاف  کا کہناہے کہ ایک کیمیائی مرکب کے ذریعے یاداشت بہتر بنانا ایک شاندار پیش رفت ہے  لیکن ابھی اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ماہرین پی کے ایم زیٹا پر اپنے تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ وہ نئی دوا جلد مارکیٹ میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اور پھر آپ ایک انجکشن لینے کے بعد بڑے فخر سے کہہ سکیں گے کہ مجھے یاد ہے ذرا ذرا۔
دنیا بھر کے فلمی ناظرین کے لئے نئی پاکستانی فلم "بول" 20 مئی کو ریلیز کی جارہی ہے۔ فلم "بول" پاکستان کے باصلاحیت اور نامور ڈائریکٹر شعیب منصور کی کاوش ہے جو اس سے قبل فلم "خدا کے لئے" ڈائریکٹ کرچکے ہیں۔ "خداکے لئے" بھی دنیا بھر میں ریلیز ہوئی تھی اور اسے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ "بول" کی نمائش بھی دنیا بھر میں کی جائے گی۔
فلم "بول" کے پروڈیوسر وکرم راجانی اور شاہد جمال ہیں جبکہ فلم کی کہانی خود شعیب منصور نے لکھی ہے۔ "بول" ایروز انٹرنیشنل، شو مین پروڈکشن اور جیو فلمزکے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ فلم لاہور میں رہنے والی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو دقیانوسی معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج کے خلاف آواز احتجاج بلند کرتی ہے۔ اس کا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جہاں عورتوں کو ایک بوجھ اور بے مصرف شے سمجھا جاتا ہے۔ فلم میں عورتوں کی حالت زار کواس قدر دلکش انداز میں دکھایا گیا ہے کہ دیکھنے والے کو وہ گھرانہ جانا پہچانا سا لگتا ہے ۔ دراصل بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے بعض گھرانے اب بھی عورت کو وہ مقام نہیں دے سکے ہیں جس کی وہ مستحق ہے۔
فلم کے فنکاروں میں حمیرا ملک، عاطف اسلم، ایمان علی، مائرہ خان، منظر صہبائی اور شفقت چیمہ شامل ہیں۔ عاطف اسلم گلوکاری اور ایمان علی ماڈلنگ کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں جبکہ شفقت چیمہ فلموں کا ایک بڑا نام ہے۔
فلم کی موسیقی باقر عباس نے ترتیب دی ہے جبکہ سنگرز میں عاطف اسلم، حدیقہ کیانی، سجاد علی، شبنم مجید، احمد جہانزیب اور شجاع حیدر شامل ہیں۔

Thursday, April 14, 2011

سر راہے

امریکی صدر اوباما نے شکوہ کیا ہے کہ صدر بننے کے بعد نجی زندگی ختم اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور آزادیاں چھن گئی ہیں۔ موجودہ پوزیشن میں لانگ ڈرائیو‘ سپرمارکیٹ اور کار واش جیسی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ہو گیا ہوں۔
اوباما کے اس بیان سے مستقبل میں امریکی صدارت کے خواہش مندوں کے ارمان خاک میں مل گئے ہونگے‘ پوری دنیا پر حکومت کرنے کی خوشی کے سامنے لانگ ڈرائیو‘ سپر مارکیٹ اور کار واش جیسی چھوٹی خوشیاں تو قربان کی جا سکتی ہیں۔ مثل مشہور ہے:
عدالت میں جج نے چور سے کہا‘ یہاں پانچ آدمیوں نے تمہارے سامنے گواہی دی ہے کہ انہوں نے تمہیں چوری کرتے دیکھا ہے۔ چور ڈھٹائی سے بولا: ”یہ کونسی بڑی بات ہے جناب! میں پانچ سو ایسے گواہ پیش کر سکتا ہوں جو کہیں گے کہ انہوں نے مجھے چوری کرتے نہیں دیکھا۔“ مستقبل کے صدارتی امیدوار مایوس نہ ہوں‘ دنیا بھر کے ہزاروں حاضر اور سابق صدور گواہی دینے کیلئے تیار ہیں کہ انہوں نے نہ صرف صدر ہوتے اپنے آپکو مضبوط بنایا بلکہ دنیا بھر کی خوشیاں اپنے آنگن میں سمیٹے رکھیں۔ اوباما کو کانگریس کے سامنے اس شعر کا ورد کرنا چاہیے....
امریکہ کے دشمن کو ہم اپنے گھر پہ آپ بلا لائے
کیسے کہوں میں دوستو ہم نے کوئی اچھا کام کیا

’عدالتی تحقیقات ہوئیں مگر ثبوت نہ ملا‘

فائل فوٹو

Wednesday, April 13, 2011

’برائے مہربانی صبر سے کام لیجیے‘

فضل کریم فائل فوٹو
فضل کریم کے پاس امریکی حکام کی جانب سےگزشتہ برس اکیس جولائی کو جاری کیا جانے والا رہائی کا پروانہ موجود ہے لیکن کابل کے شمال میں بگرام کے مقام پر قائم امریکی فوجی قیدخانے سے اُسے رہائی آج تک نہیں مل سکی۔
ستائیس سالہ فضل کریم روزانہ رہائی کی امید میں اٹھتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ گھر نہیں جا پا رہے۔
فضل کا تعلق سوات سے ہے لیکن ان کا خاندان طویل عرصے سے کراچی میں مقیم ہے۔
یہ سب بےقصور ہیں کیونکہ اگر ان کے خلاف کچھ ثبوت ہوتے تو ان کے خلاف اب تک عدالتی کارروائی شروع کر دی گئی ہوتی۔
غیرسرکاری تنظیم رپریو کی نمائندہ سلطانہ نون
وہ کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر بھی جایا کرتے تھے اور سنہ دو ہزار تین میں بھی اسی سلسلے میں گھر سے نکلے اور پھر لوٹ کر واپس نہیں آئے۔
اُن کے والد اُن کی واپسی کی امید دل میں ہی لیے سنہ دو ہزار آٹھ میں انتقال کرگئے۔
فضل اسی جیل میں قید ہیں جس کے بارے میں امریکی تحقیقاتی ادارے سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا کا کہنا ہے کہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو ابتدائی تفتیش کے لیے یہیں لایا جائے گا، اگر وہ کبھی گرفتار ہوئے تو۔
وہ کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر بھی جایا کرتے تھے اور سنہ دو ہزار تین میں بھی اسی سلسلے میں گھر سے نکلے اور پھر لوٹ کر واپس نہیں آئے۔
گزشتہ دسمبر قیدیوں کو پرانی جیل سے کئی کلومیٹر دور زیادہ جدید تعیمر شدہ قیدخانے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
آڈیوویڈیو کا کاروبار کرنے والے فضل کریم کے گھر والوں کو سنہ دو ہزار پانچ میں ریڈ کراس کے ذریعے اُن کا ایک خط ملا جس سے ان کی بگرام میں موجودگی ثابت ہوئی۔ انہوں نے دورانِ حراست مار پیٹ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
اس پاکستانی قیدی کے خلاف کبھی کوئی باضابطہ مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ آزادی کا حکم نامہ مل جانے کے باوجود اسے رہائی نہ ملنے پر اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ وہ اس طرح کی مشکل میں اکیلا نہیں ہے۔ خیال ہے کہ پاکستان کے لگ بھگ پچیس قیدیوں کے علاوہ یمن، تیونس اور کئی دیگر ممالک کے قیدی بھی اسی شش و پنج میں مبتلا ہیں۔
آڈیوویڈیو کا کاروبار کرنے والے فضل کریم کے گھر والوں کو سنہ دو ہزار پانچ میں ریڈ کراس کے ذریعے اُن کا ایک خط ملا جس سے ان کی بگرام میں موجودگی ثابت ہوئی۔ انہوں نے دورانِ حراست مار پیٹ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
بگرام میں قید پچیس میں سے سات پاکستانیوں کی رہائی کے لیے سرگرم غیرسرکاری تنظیم رپریو کی نمائندہ سلطانہ نون نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ساتوں مؤکلوں کو رہائی کی خبر سنائی جاچکی ہے۔ ’یہ سب بےقصور ہیں کیونکہ اگر ان کے خلاف کچھ ثبوت ہوتے تو ان کے خلاف اب تک عدالتی کارروائی شروع کر دی گئی ہوتی۔‘
اُن کی رہائی میں تاخیر کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوسکتی کیونکہ ان قیدیوں کے وکلاء کو بھی اب تک کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
سلطانہ نون کہتی ہیں کہ دونوں حکومتیں ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کر رہی ہیں۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان جواب نہیں دے رہا جبکہ پاکستان کہتا ہے کہ امریکی ان کی درخواست پر کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن ذمہ داری دونوں کی ہے۔ ایک نے انہیں گرفتار کیا اور دوسرے نے انہیں قید کیا۔
بعض لوگوں کو شک ہے کہ حکومتِ پاکستان اُن کی واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ رپریو کی نمائندہ سلطانہ نون اس سے متفق ہیں۔’بلکل پاکستان اُن کی رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔ ان کے خاندان انہیں واپس لینے کو تیار ہیں۔‘
تین ہفتے قبل فضل سے فون پر بات ہوئی ہے اور تین مرتبہ بتایا جاچکا ہے کہ اُسے رہا کیا جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
فضل کریم کے بھائی فضل رحمان
فضل کریم کے بھائی فضل رحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شک کا اظہار کیا کہ ان کے بھائی کی رہائی میں اس مرتبہ تاخیر امریکی سی آئی اے کے اہکار ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ’تین ہفتے قبل فضل سے فون پر بات ہوئی ہے اور تین مرتبہ بتایا جاچکا ہے کہ اُسے رہا کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
امریکی محمکہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ وہ ان افراد کی جلد رہائی کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ خبررساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے پینٹاگون کے ترجمان لیفٹنٹ کرنل تانیا بریڈشر نے بتایا کہ رہائی کے فیصلے کے بعد قیدیوں کی منتقلی کے لیے سفارت کوششیں کی جاتی ہیں۔ ’امریکہ کسی کو بلا ضرورت قید رکھنا نہیں چاہتا ہے۔‘
فضل رحمان کا کہنا ہے کہ اُن کے والد تو بیٹے کا منہ دیکھے بغیر فوت ہوگئے لیکن اب ان کی ضعیف والدہ کا ارمان ہے کہ اسے ایک مرتبہ دیکھ ضرور لے۔
فضل کریم کو گزشتہ برس جولائی کے بعد اکتوبر میں پھر رہائی کا حکم نامہ دیا گیا جس کے مطابق اسے جتنا جلد ممکن ہوسکا ان کے آبائی ملک منتقل کر دیا جائے گا۔ ’آپ کی منتقلی میں کچھ وقت لگا سکتا ہے برائے مہربانی جب تک انتظامات مکمل ہو جائیں صبر سے کام لیجیے۔‘

Protest in Toronto Canada against Indian occupied force's crimes

Press release

Anti war  organizations and  Friends of Kashmir Canada Protest in Toronto Canada against Indian  occupied force's  crimes  .  Aliya Khawaja In her speech  said that I would like to draw your Attention to the grave humanitarian crisis in the Internationally Disputed Areas of the Indian occupied Kashmir (IDAJK). The Kashmir question remains as one of the oldest, unresolved, international problems in the world.
  
In the Indian occupied Kashmir human rights violations by Indian occupation forces is a routine matter. Today not a single household is left that had not lost, a woman, a child or a man, to this blood thirst of occupation force
23 resolutions have been passed by UN on Kashmir dispute, Indian rulers promised before the UN to resolve the dispute and provide the people of Kashmir with their basic right of self-determination, but later backed away from their commitments. India has rejected every appeal every suggestion nothing moved them into action. This is denial of basic human rights and the question of life and death of 12 million people. The problem should be resolved before it led to an explosion.
India has been putting peace, security and stability of the entire South Asia at stake by demonstrating continued rigidity and stubbornness and not responding positively to the efforts made by the international community to settle the Kashmir dispute during the last more than six decades.
 The troops have been setting new records of human rights violations by killing innocent people, arresting youth, disgracing and harassing women and setting residential houses afire with impunity.

The troops have killed over ninety-three thousand Kashmiris, widowed more than twenty five thousand women, orphaned more than one hundred thousand children and molested or gang-raped around ten thousand Kashmiri women during the past 20 years. Children being the victims of Indian forces and torture them by taking them away from their home land. The whereabouts of thousands of innocent Kashmiris, disappeared in the custody of troops, are yet to be made known while hundreds of unnamed graves have been discovered in the occupied territory, which are believed to could be of disappeared Kashmiris. This whole mayhem is being carried out with the protection of draconian laws, by virtue of which any person can be killed or put behind the bars without any accountability. Just imagine during a peaceful rally in 1948 in Jammu 200,000 people were massacred.
The Amnesty International, Human Rights Watch, Asia Watch and other international humanitarian organizations in their regular reports over the unabated rights abuses in the occupied territory have been raising their concern. These include extra judicial killings, disappearances, arrests and desecration of women.
Our message to peace loving peoples like you to take cognizance of the miseries of Kashmiri people, help stop human rights violations in the occupied territory and play its role in bringing about a solution of the Kashmir dispute in accordance with Kashmiris' aspirations. It is also aimed at calling upon India to read writing on the wall, accept the ground realities and come forward with a realistic approach to settle the dispute for the larger interest of the people of the region. Please help Kashmiri for their right of self determination so that Kashmiri can live with peace & dignity. Kashmiri need your support.
Seven hundred thousand Indian forces want to silence kashmiries  by guns and weapons but I want to say that they cannot silence Kashmiries!
Kashmir wants peace not only in Kashmir but  entire world.
The following measures need to be taken:

1. To implement the United Nations Security Council resolutions on the right to self-determination;
2. To uphold the European Parliaments resolution on mass graves in Kashmir;
3. To withdraw the occupational forces from the Indian occupied kashmir;
4. To put an end to the consistent gross human rights violations through practices such as arbitrary detention, enforced disappearance and summary or arbitrary execution, etc.;
5. To respect international human rights norms and treating which India is a signatory including the Universal Declaration of Human Rights and International Covenant on Civil and Political Rights;
6. To undertake an independent and impartial investigation in all killings including of the ones noted above, custodial deaths, disappearances, fake encounters, rapes, etc. under international law and international auspices;
7. To allow access to major human rights organizations and international media in Indian occupied Kashmir;

At the end I want to say that quote

How can one not speak about war, poverty, and inequality when people who suffer from these afflictions don't have a voice to speak?
Friends Of Kashmir Canada