کراچی میں گرفتار ٹارگٹ کلرز کے انکشافات
ٹارگٹ کلرزکی جانب سے کئے گئے انکشافات اور تفتیشی ٹیم کی جاری کردہ رپورٹس میں پہلی بار 'نامعلوم' ٹارگٹ کلرز کو ان کی سیاسی شناخت دی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بدنام ترین شرپسند عناصر کے کس کس سیاسی جماعت سے تعلق تھے اور انہوں نے کون کون سی مخالف جماعتوں کے کون کون سے کارکنوں کو ٹارگٹ کیا، ان رازوں سے بھی پہلی مرتبہ پردہ اٹھایا گیا ہے۔
رپورٹس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت کا کوئی نہ کوئی عسکری ونگ ضرور ہے جس کا اہم کام مخالفین کو راستے سے ہٹانا ہے۔ رپورٹس کے مطابق کئی شرپسند عناصر پارٹی پالیسی کے خلاف بھی مخالفین کو قتل کرتے رہے ہیں۔ اکثر و بیشتر قتل کی یہ وارداتیں ذاتی مفاد کے حصول اور ذاتی دشمنیاں نمٹانے کیلئے کی جاتی تھیں۔
سندھ کے محکمہ داخلہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2010ء کے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے سلسلے میں جن 26 ملزمان کو گرفتار کرکے تفتیش کی گئی ہے ان کا تعلق ایم کیو ایم، ایم کیو ایم (حقیقی)، اے این پی، سپاہ صحابہ، سپاہِ محمد اور لشکر جھنگوی سے ہے۔ تاہم ان سیاسی جماعتوں نے اس کی تردید کی ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں نے یہ تو قبول کیا ہے کہ یہ ان کے کارکن ہیں تاہم وہ اس بات سے انکاری ہیں کہ یہ افراد ٹارگٹ کلرز ہیں۔
اکثر ٹارگٹ کلرز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کراچی میں واردات کرکے جنوبی افریقہ، لندن یا پھر دیگر ممالک جاتے اور کچھ عرصے بعد واپس آتے رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق متعدد جرائم پیشہ عناصر جیل کاٹنے کے بعد بھی نہیں سدھرے اور جیل سے آنے کے بعد ووبارہ اسی قسم کی سرگرمیوں یا جرائم میں ملوث ہو تے رہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی جماعتوں کے نامور رہنماوٴں کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ رپورٹس میں ان رہنماوٴں کے نام بھی واضح طور پر درج ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ٹارگٹ کلرز زیادہ تر سیاسی مخالفین، پولیس اہلکاروں اورمخالف فرقوں کے ماننے والوں کو ہلاک کرتے رہے ہیں۔ رپورٹس کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ٹارگٹ کلرز نے مذہب اور فرقہ پرستی کو بنیاد بناکر بھی درجنوں افراد کو ہلاک کیا۔
مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ مخالفین کو مارنے کے لئے مساجد کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور بیشتر سیاسی قتل کی منصوبہ بندی مساجد یا دینی مقامات پر کی گئی ۔ تفتیشی ٹیم کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی رپورٹس میں ملزمان نے متعدد بڑی اور چھوٹی وارداتوں کا نہایت تفصیلی نقشہ کھینچا ہے۔
No comments:
Post a Comment