’عدالتی تحقیقات ہوئیں مگر ثبوت نہ ملا‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کا آغاز گیارہ نومبر سنہ انیس سو چوہتّر کی شب اس وقت ہوا جب قانون دان، رکن قومی اسمبلی اور سیاسی جماعت تحریک استقلال کے سیکریٹری اطلاعات احمد رضا قصوری لاہور میں اپنے اہل خانہ کےساتھ گاڑی میں جارہے تھے۔
گولی چلائی گئی اور گاڑی میں احمد رضا قصوری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان کے والد نواب محمد احمد خان ہلاک ہوگئے۔قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوا مگر احمد رضا قصوری نے موقف اختیار کیا کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اس وقت ملک کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ایما پر سیاسی انتقام کے لئے اس حملے کا نشانہ انہیں بنایا گیا اور ان کے والد ہلاک ہوگئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں دھمکی دی تھی کہ انہیں بہت برداشت کرلیا گیا اب انہیں خاموش ہوجانا چاہیے وہ ذوالفقار بھٹو کے خلاف بہت زہر اگل چکے ہیں اور اب انہیں مزید برداشت نہیں کیا جائے گا
احمد رضا قصوری
ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل حفیظ لاکھو کہتے ہیں بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے جج شفیع الرحمٰن کی سربراہی میں قائم خصوصی ٹریبونل نے عدالتی تحقیقات کیں مگر کوئی ثبوت نہ ملا کہ یہ قتل ذوالفقار بھٹو کےایماء پر ہوا۔ دوبارہ تفتیش کا حکم ضرور جاری ہوا مگر تفتیش مکمل نہ ہوسکی اور کیس داخل دفتر کردیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو حزبِ اختلاف کی نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کے زبردست سیاسی مخالفت کا سامنا رہا۔ سیاستدانوں کی چپقلش کے دوران اس وقت فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی سنہ انیس سو ستّتر کو ذوالفقار علی بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج شفیع الرحمن کی سربراہی میں قائم خصوصی ٹریبونل نے عدالتی تحقیقات کیں مگر کوئی ثبوت نہ ملا کہ یہ قتل ذوالفقار بھٹو کےایماء پر ہوا۔ دوبارہ تفتیش کا حکم ضرور جاری ہوا مگر تفتیش مکمل نہ ہوسکی اور کیس داخل دفتر کردیا گیا
ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل حفیظ لاکھو
مارشل لاء کے نتیجے میں گرفتار ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو انتیس جولائی سنہ انیس سو ستتر کو رہا ہوئے۔ تین ستمبر کو انہیں پھر گرفتار کرلیا گیا اور تیرہ ستمبر کو جسٹس کے ایم اے صمدانی نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا۔ مگرجسٹس کے ایم اے صمدانی کا تبادلہ کردیا گیا۔
سولہ ستمبر کو ذوالفقار علی بھٹو پھرجیل بھیج دئیے گئے اور چوبیس اکتوبر سنہ انیس سو ستّتر کو احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا مقدمہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا لاہور ہائی کورٹ پہنچا جہاں مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس تھے۔
اس مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پانچ دیگر افراد بھی شریک جرم گردانے گئے۔ ایک اُس وقت کے بدنام زمانہ وفاقی ادارے فیڈرل سیکیورٹی فورس یا ایف ایس ایف نامی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے۔ دوسرے وعدہ معاف گواہ بنے غلام حسین جو سپاہی تھے۔
حفیظ لاکھو کہتے ہیں کہ خود ذوالفقار علی بھٹو نے چیف جسٹس کے ساتھ اپنے ذاتی اختلاف کا معاملہ اٹھایا تھا اور جیسے ہی مقدمہ شروع ہوا تو انہوں نے اپنا اعتراض درج کروایا جس پر جسٹس حسین نے کہا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کو کرنے دیں کہ مقدمے کی سماعت کون کرے گا۔ میں ہائی کورٹ کا جج ہوں مقدمہ بھی میں سنوں گا اور فیصلہ بھی میں ہی کروں گا جس پر بھٹو صاحب نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ بھی کیا۔
اس مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پانچ دیگر افراد بھی شریک جرم گردانے گئے۔ ایک اُس وقت کے بدنام زمانہ وفاقی ادارے فیڈرل سیکیورٹی فورس یا ایف ایس ایف نامی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے۔ دوسرے وعدہ معاف گواہ بنے غلام حسین جو سپاہی تھے۔
اٹھارہ مارچ سنہ انیس سو اٹھہتّر کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا سنا دی۔ جس کے بعد ذوالفقار بھٹو کےوکلاء نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ میں ابتداء میں نو وکلاء تھے۔ لیکن جسٹس قیصر ریٹائر ہوگئے، جسٹس وحیدالدین بیمار ہوگئے اور یوں چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
حفیظ لاکھو نے الزام لگایا کہ باقی تین شریک مجرم جو سپاہی تھے، جماعت اسلامی کے لوگ تھے۔ جس دن انہیں سزا سنائی گئی تو وہ عدالت ہی میں کھڑے ہوگئے کہ صاحب ہم سے تو وعدہ کیا گیا تھا کہ سزا نہیں ہوگی۔
اٹھارہ مارچ سنہ انیس سو اٹھہتّر کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا سنا دی۔ جس کے بعد ذوالفقار بھٹو کےوکلاء نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ میں ابتداء میں نو وکلاء تھے۔ لیکن جسٹس قیصر ریٹائر ہوگئے، جسٹس وحیدالدین بیمار ہوگئے اور یوں چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
سات میں سے چار ججز نے ذوالفقار علی بٹھو کی سزا برقرار رکھی مگر تین ججز، جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اور درّاب پٹیل اُن تین ججز میں شامل تھے جن کا موقف تھا کہ جرم ثابت نہیں ہوتا۔
جسٹس دراب پٹیل کہتے ہیں مقدمہ انتہائی سادہ تھا۔ دو وعدہ معاف گواہوں کے بیانات ثبوت تھے۔ ایک مسعود محمود ایک غلام حسین۔ غلام حسین کی گواہی بھٹو کے خلاف نہیں تھی بلکہ میاں عباس کے خلاف تھی۔
غلام حسین کے بقول میاں عباس نے انہیں فون کیا کہ مسعود محمود نے میاں عباس سے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کا کہا ہے۔ یہ ساری باتیں بیانات اور کہی سنی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر عدالتوں (ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ) نے کیوں غلام حسین کے بیان کو اتنی اہمیت دی۔ ہم برطانوی قوانین پر چلتے ہیں۔ جن کے مطابق حکم یا ہدایت دینے والے کو سزائے موت نہیں ہوسکتی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے وکلاء سے شکایت تھی کہ انہوں نے کیس کی پیروی درست نہیں کی مگر حفیظ لاکھو کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں بھٹو صاحب وکلاء کی کارکردگی سے مطمئن تھے مگر کہتے تھے کہ وکلاء کے بس کی بات نہیں کہ ان کو رہا کروالیں انہیں عوام چھڑوائیں گے۔
سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔
اس فیصلے کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے اہل خانہ نے پھر گیارہ فروری کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔
سماعت چودہ فروری کو شروع ہوئی اور چوبیس مارچ سنہ انیس سو اناسی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ پھر برقرار رکھا درخواست خارج کردی اور چار اپریل سنہ انیس سو اناسی کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔
No comments:
Post a Comment