Monday, April 18, 2011

قومی زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک

پروفیسر سید اسراربخاری ـ source:nawai waqt 
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو اردو کو اس کی قومی زبان قرار دیا گیا۔ جس کا مطلب تو یہ تھا کہ آج ہمارا تمام تر کاروبار حکومت اردو زبان کو وسیلہ اظہار بناتا‘ انگریزی زبان کو بطور ایک زبان کے ضرور سیکھا جاتا مگر اسے غلامی اور احساس برتری کی علامت نہ بنایا جاتا کہ آج یہ حالت ہو گئی ہے اگر ایک فاضل شخص کوثر و تسنیم سے دھلی اردو میں بات کرتا ہے تو اس کی گفتگو کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جو ایک غلط انگریزی بولنے والے کو حاصل ہوتا ہے۔ حصول معلومات کےلئے کسی ”بدیسی زبان“ کو سیکھنا استعمال کرنا اچھی بات ہے لیکن اسے اپنی پہچان اور شناخت بنا لینا احساس ”کم مائیگی“ ہے جو قومی سطح پر غلامانہ اثرات کا احیا کر رہاہے اور قومی زبان کو داخل دفتر کرنے کا سبب بنا ہے۔ ہمارے دفاتر، تعلیمی اداروں، سرکاری دستاویزات، سبھی کچھ کی زبان اردو ہونی چاہئے جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہے اور اپنی حیثیت من حیث القوم کھو بیٹھے ہیں، ہمارے سامنے دیگر ممالک کی مثالیں ہیں جن کی حکومتیں اور حکمران اپنی قومی زبان ہی کو ذریعہ اظہار و تحریر بناتے ہیں اگر سعودی عرب یا چین کا سربراہ بیرونی دورے پر جائے تو انگریزی جاننے کے باوجود وہ ترجمان کے ذریعے اپنا موقف بیان کرتے ہیں اور خود اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہیں مگر ہمارے حکمران جو 63 برس گزر جانے کے باوجود احساس کمتری سے نہیں نکلے بیرونی دوروں میں انگریزی زبان بولنا قابل فخر سمجھتے ہیں اور اپنی زبان کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اردو ایک مکمل اور شستہ وشائستہ زبان ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ اس کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا، آج جو سکول اردو میں پڑھاتے ہیں ان کی اہمیت و حیثیت انگلش میڈیم سکولوں کے مقابلے میں پرپشہ کے برابر بھی نہیں اور ہمارے لوگوں کو بھی یہ نفسیاتی عارضہ لاحق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی میں بات کرتے ہوئے سنتے ہیں تو ان کا سر شرم سے جھکنے کے بجائے فخر سے بلند ہو جاتا ہے ایک قومی سطح کا احساس کمتری ہے جس کی روز افزوں آبیاری کی جاتی ہے۔ ہمارے مطالبات میں ہر چیز شامل ہوتی ہے لیکن معدودے چند لوگ ہیں جو اردو کو اس کا صحیح مقام دلوانے کےلئے کوشاں ہیں مگر ان کی آواز معاشرے میں انگریزی کے شور میں طوطی کی طرح گم ہو جاتی ہے اور اردو کا طوطئیِ شکر مقال اپنا جیسا منہ لے کر رہ جاتا ہے یہ نہیں کہ کوئی انجمن یا افراد اس سلسلے میں پیش پیش نہیں لیکن عوامی شرکت اور دلچسپی سے ہی ایک تحریک چلائی جا سکتی ہے جو قومی زبان اردو کو پاکستان کی پہچان کا حصہ بنا سکتی ہے۔ یہ ایک قابل توجہ بات ہے کہ اردو کو اس کا جائز مقام دینے سے ہم عربی اور فارسی سے بھی مربوط ہو سکتے ہیں جن کو ہم نے کب کا ترک کر رکھا ہے اردو میں عربی سے جلال اور فارسی سے جو جمال پیدا ہوا وہ اس زبان کی وقعت کو اور بڑھا دیتا ہے۔ ہمیں اپنی زبان کا پندار حاصل ہونا چاہئے جیسے داغ نے کہا تھا
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں سکہ ہماری زباں کا ہے
اور اب تو اردو زبان نے علم و ادب کے میدان میں اتنا سفر طے کر لیا ہے کہ بسا اوقات جو بات مادری زبان میں نہیں کہہ پاتے اردو میں بااحسن طریق بیان کر لیتے ہیں، گویا اس کا دائرہ اظہار اور اس کا لغوی و معنوی حجم اس قدر بڑھ ہو چکا ہے کہ یہ ہر باریک تر خیال کو پیرہنِ اظہار عطا کر سکتی ہے، ایک عالم دین کی نعت کا شعر ملاحظہ ہو
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
ان چند سطور میں تو ہم اردو جو ہماری قومی زبان ہے اس کی وسعت و گہرائی کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جاتے جاتے یہ کہتے چلیں کہ یہ ہمارے لئے مقام شرم ہے کہ ہم اور ہمارے حکمران قومی زبان سے اتنے لاتعلق اور غافل کیوں ہیں۔؟

No comments:

Post a Comment