Wednesday, April 13, 2011

’برائے مہربانی صبر سے کام لیجیے‘

فضل کریم فائل فوٹو
فضل کریم کے پاس امریکی حکام کی جانب سےگزشتہ برس اکیس جولائی کو جاری کیا جانے والا رہائی کا پروانہ موجود ہے لیکن کابل کے شمال میں بگرام کے مقام پر قائم امریکی فوجی قیدخانے سے اُسے رہائی آج تک نہیں مل سکی۔
ستائیس سالہ فضل کریم روزانہ رہائی کی امید میں اٹھتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ گھر نہیں جا پا رہے۔
فضل کا تعلق سوات سے ہے لیکن ان کا خاندان طویل عرصے سے کراچی میں مقیم ہے۔
یہ سب بےقصور ہیں کیونکہ اگر ان کے خلاف کچھ ثبوت ہوتے تو ان کے خلاف اب تک عدالتی کارروائی شروع کر دی گئی ہوتی۔
غیرسرکاری تنظیم رپریو کی نمائندہ سلطانہ نون
وہ کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر بھی جایا کرتے تھے اور سنہ دو ہزار تین میں بھی اسی سلسلے میں گھر سے نکلے اور پھر لوٹ کر واپس نہیں آئے۔
اُن کے والد اُن کی واپسی کی امید دل میں ہی لیے سنہ دو ہزار آٹھ میں انتقال کرگئے۔
فضل اسی جیل میں قید ہیں جس کے بارے میں امریکی تحقیقاتی ادارے سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا کا کہنا ہے کہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو ابتدائی تفتیش کے لیے یہیں لایا جائے گا، اگر وہ کبھی گرفتار ہوئے تو۔
وہ کاروبار کے سلسلے میں شہر سے باہر بھی جایا کرتے تھے اور سنہ دو ہزار تین میں بھی اسی سلسلے میں گھر سے نکلے اور پھر لوٹ کر واپس نہیں آئے۔
گزشتہ دسمبر قیدیوں کو پرانی جیل سے کئی کلومیٹر دور زیادہ جدید تعیمر شدہ قیدخانے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
آڈیوویڈیو کا کاروبار کرنے والے فضل کریم کے گھر والوں کو سنہ دو ہزار پانچ میں ریڈ کراس کے ذریعے اُن کا ایک خط ملا جس سے ان کی بگرام میں موجودگی ثابت ہوئی۔ انہوں نے دورانِ حراست مار پیٹ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
اس پاکستانی قیدی کے خلاف کبھی کوئی باضابطہ مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ آزادی کا حکم نامہ مل جانے کے باوجود اسے رہائی نہ ملنے پر اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ وہ اس طرح کی مشکل میں اکیلا نہیں ہے۔ خیال ہے کہ پاکستان کے لگ بھگ پچیس قیدیوں کے علاوہ یمن، تیونس اور کئی دیگر ممالک کے قیدی بھی اسی شش و پنج میں مبتلا ہیں۔
آڈیوویڈیو کا کاروبار کرنے والے فضل کریم کے گھر والوں کو سنہ دو ہزار پانچ میں ریڈ کراس کے ذریعے اُن کا ایک خط ملا جس سے ان کی بگرام میں موجودگی ثابت ہوئی۔ انہوں نے دورانِ حراست مار پیٹ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
بگرام میں قید پچیس میں سے سات پاکستانیوں کی رہائی کے لیے سرگرم غیرسرکاری تنظیم رپریو کی نمائندہ سلطانہ نون نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ساتوں مؤکلوں کو رہائی کی خبر سنائی جاچکی ہے۔ ’یہ سب بےقصور ہیں کیونکہ اگر ان کے خلاف کچھ ثبوت ہوتے تو ان کے خلاف اب تک عدالتی کارروائی شروع کر دی گئی ہوتی۔‘
اُن کی رہائی میں تاخیر کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوسکتی کیونکہ ان قیدیوں کے وکلاء کو بھی اب تک کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
سلطانہ نون کہتی ہیں کہ دونوں حکومتیں ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کر رہی ہیں۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان جواب نہیں دے رہا جبکہ پاکستان کہتا ہے کہ امریکی ان کی درخواست پر کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن ذمہ داری دونوں کی ہے۔ ایک نے انہیں گرفتار کیا اور دوسرے نے انہیں قید کیا۔
بعض لوگوں کو شک ہے کہ حکومتِ پاکستان اُن کی واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ رپریو کی نمائندہ سلطانہ نون اس سے متفق ہیں۔’بلکل پاکستان اُن کی رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔ ان کے خاندان انہیں واپس لینے کو تیار ہیں۔‘
تین ہفتے قبل فضل سے فون پر بات ہوئی ہے اور تین مرتبہ بتایا جاچکا ہے کہ اُسے رہا کیا جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
فضل کریم کے بھائی فضل رحمان
فضل کریم کے بھائی فضل رحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شک کا اظہار کیا کہ ان کے بھائی کی رہائی میں اس مرتبہ تاخیر امریکی سی آئی اے کے اہکار ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ’تین ہفتے قبل فضل سے فون پر بات ہوئی ہے اور تین مرتبہ بتایا جاچکا ہے کہ اُسے رہا کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
امریکی محمکہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ وہ ان افراد کی جلد رہائی کے لیے کوشش کر رہا ہے۔ خبررساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے پینٹاگون کے ترجمان لیفٹنٹ کرنل تانیا بریڈشر نے بتایا کہ رہائی کے فیصلے کے بعد قیدیوں کی منتقلی کے لیے سفارت کوششیں کی جاتی ہیں۔ ’امریکہ کسی کو بلا ضرورت قید رکھنا نہیں چاہتا ہے۔‘
فضل رحمان کا کہنا ہے کہ اُن کے والد تو بیٹے کا منہ دیکھے بغیر فوت ہوگئے لیکن اب ان کی ضعیف والدہ کا ارمان ہے کہ اسے ایک مرتبہ دیکھ ضرور لے۔
فضل کریم کو گزشتہ برس جولائی کے بعد اکتوبر میں پھر رہائی کا حکم نامہ دیا گیا جس کے مطابق اسے جتنا جلد ممکن ہوسکا ان کے آبائی ملک منتقل کر دیا جائے گا۔ ’آپ کی منتقلی میں کچھ وقت لگا سکتا ہے برائے مہربانی جب تک انتظامات مکمل ہو جائیں صبر سے کام لیجیے۔‘

No comments:

Post a Comment