معین اختر کا سفر
ابھی لاہور میں مستانہ اور ببو برال کی رحلت کا غم تازہ تھا کہ کراچی سے معین اختر کے جدا ہو جانے کی افسوس ناک اطلاع موصول ہوئی۔شاید پاکستان کی فن کار برادری پر یہ برس بھاری ہے۔
معین اختر جیسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ انھوں نے سولہ برس کی عمر میں سٹیج پر اپنی پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لئے۔ابھی کراچی میں ٹیلی ویژن شروع نہیں ہوا تھا اس لئے ریڈیو کے بعد سٹیج ہی فن کے اظہار کا ایک ذریعہ تھا۔
شو بِز کی دنیا میں یہ بات محاورے کی طرح مشہور ہے کہ شہرت کی چوٹی پہ پہنچ جانا تو آسان ہے لیکن وہاں ٹِکے رہنا بہت مشکل ہے کیونکہ شہرت و مقبولیت ایک ہر جائی محبوبہ کی طرح کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی۔ معین اختر کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس ہرجائی محبوبہ کو رام کر چُکے تھے۔
انیس سو ستر کے انتخابات کے دوران ٹیلی ویژن پر پیش کئے جانے والے خاکوں میں معین نے اپنے کئی نئے رنگ دکھائے اور یوں ستّر کی دہائی اُن کے بامِ عروج پر پہنچنے کا زمانہ ٹھہرا۔
شو بِز کی دنیا میں یہ بات محاورے کی طرح مشہور ہے کہ شہرت کی چوٹی پہ پہنچ جانا تو آسان ہے لیکن وہاں ٹِکے رہنا بہت مشکل ہے کیونکہ شہرت و مقبولیت ایک ہر جائی محبوبہ کی طرح کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی۔ معین اختر کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس ہرجائی محبوبہ کو رام کر چُکے تھے اور سن ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں کامیابی کا جو تاج معین اختر کے سر پہ سجا دیا گیا تھا اسے معین اختر نے آخری لمحے تک گِرنے نہیں دیا۔
اُردو معین کی اپنی زبان تھی لیکن بنگالی، سندھی، میمنی اور گجراتی سے انھوں نے محض فنکارانہ ضرویات کے تحت شناسائی پیدا کی اور ان زبانوں کے لہجے اور تلفظ پر ایسا عبور حاصل کیا کہ اہلِ زبان کو بھی انگشت بدنداں کر دیا۔
نقالی کی صلاحیت کو اداکاری کا سب سے پہلا مرحلہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اداکاری کی معراج نہیں ہے۔ یہ سبق معین اختر نے اپنے کیرئر کی ابتداء ہی میں سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ نقالی کے فن میں ید طولٰی حاصل کرنے کے باوجود اس نے خود کو اس مہارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر اداکاری کے تخلیقی جوہر تک رسائی حاصل کی۔
معین اختر کی داستانِ حیات ایک طرح سے پاکستان ٹیلی ویژن کی اپنی جیون کتھا بھی ہے۔ دونوں ایک ساتھ منظرِ عام پر آئے۔ دونوں نے اکٹھے مقبولیت اور شہرت کا سفر کیا اور دونوں کا نام دنیا بھر میں آباد پاکستانیوں تک ایک ساتھ پہنچا اور پھر میڈیا کے بدلتے ہوئے عالمی منظر نے جو نئے چیلنج پیش کئے، اُن سے بھی دونوں ایک ساتھ نبرد آزما ہوئے۔
معین اختر نے اگرچہ کئی بار بھارت جا کر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے ہوتے تو شاید بمبئی کی تماشہ گاہ بھی معین اختر کے سِحر سے نہ بچ سکتی لیکن بھارتی فنکاروں پر دھاک بٹھانے کے لئے معین اختر کو پھر بھی ایک راستہ مل گیا، دوبئی کا راستہ۔
معین اختر نے مشرقِ وسطٰی میں کئی بار شو منعقد کئے اور برِصغیر کے سب سے بڑے ادا کار دلیپ کمار تک کو اپنا فین بنا لیا۔ دلیپ کمار نے فاطمی فاؤنڈیشن کے لئے جب بھی بین الاقوامی شو منعقد کئے، کمپئر کے طور پر معین اختر کو مدعو کیا اور معین کسی معاوضے کی پروا کئے بغیر خون کے عطیات جمع کرنے والی اس انجمن کا خیراتی کام پوری دلجمی سے کرتے رہے۔
اسی سلسلے کے ایک ابتدائی شو میں دلیپ کمار کے سٹیج پر آنے سے پہلے معین اختر نے مائیکرو فون منہ کے بالکل قریب لا کر دلیپ کمار کی آواز میں ان کی ایک فلم کے مکالمے بولنے شروع کر دیئے۔ حاضرین تو خیر حیران ہوئے ہی، خود دلیپ کمار بھی ششد رہ گئے اور پھر دونوں کی دوستی کا ایسا آغاز ہوا جو آخر تک جاری رہا۔
اُردو معین کی اپنی زبان تھی لیکن بنگالی، سندھی، میمنی اور گجراتی سے انھوں نے محض فنکارانہ ضرویات کے تحت شناسائی پیدا کی اور ان زبانوں کے لہجے اور تلفظ پر ایسا عبور حاصل کیا کہ اہلِ زبان کو بھی انگشت بدنداں کر دیا۔ بعد میں انھوں نے پشتو اور پنجابی کے لہجوں پر بھی کام کیا اور جب جب موقعہ مِلا اِن لہجوں میں بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ بھی کیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے بلیک اینڈ وائیٹ زمانے سے لیکر آج کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک معین اختر ہر دور میں ٹی وی کے ساتھ رہے اور اگر آج اُن کے تمام کام کو زمانی ترتیب میں مُدّون کیا جائے تو خود پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک تاریخ تیار ہو جائے گی۔
No comments:
Post a Comment