PRAYER TIMES PARIS
Wednesday, December 26, 2012
Thursday, October 11, 2012
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے۔
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے۔
ملالہ یوسف زئی کے ساتھ جو ہوا اس پر سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق بحث کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پوری قوم میں غم و غصہ ہے اور عالمی دنیا کے سامنے سب کے سر جھکے ہوئے ہیں۔ معروف شاعرہ کشور ناہید نے خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت کی جانب سے مخلوط نظام تعلیم کے خاتمے کے اعلان کے وقت ایک نظم لکھی تھی۔ اس کا عنوان تھا
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے۔
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ جو علم سے بھی گریز پا
کریں ذکررب کریم
کا
وہ جو حکم دیتا ہے علم کا
کریں اس کے حکم سے ماورا یہ منادیاں
نہ کتاب
ہو کسی ہاتھ میں
نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے
کوئی نام لکھنے کی جانہ ہو
نہ
ہو رسم اسم زناں کوئی
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
کریں شہر شہر منادیاں
کہ ہر ایک قدِ حیا نما کو
نقاب دو
کہ ہر ایک دل کے سوال کو یہ جواب دو
نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں اڑیں
طائروں کی طرح بلند
نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں کہیں مدرسوں کہیں دفتروں
کا بھی
رخ کریں
کوئی شعلہ رو، کوئی باصفا، ہے کوئی
توصحنِ حرم ہی اس کا مقام
ہے
یہی حکم ہے یہ کلام ہے۔
وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ یہیں کہیں ہیں قریب میں
انہیں دیکھ لو،
انہیں جان لو
نہیں ان سے کچھ بھی بعید، شہرِ زوال میں
رکھو حوصلہ، رکھو یہ
یقین
کہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ ہیں کتنے چھوٹے وجود میں!
Tuesday, October 9, 2012
Thursday, October 4, 2012
پیرس :صحافیوں کے مابین باہمی روابط کیلتے ایک موثر و مضبوط پلیٹ فارم وقت کی اہم ضرورت ہے؛حسن وارثی
( نمائندہ خصوصی )یورپ کے مشہورصحافی و کالم نگار حسن وارثی نے اپنے ایک جاری بیان میں کہا ہے کہ یورپ کے ممالک میں مقیم پاکستانی صحافیوں کے مابین باہمی روابط کیلتے ایک موثر و مضبوط پلیٹ فارم وقت کی اہم اور اشد ضرورت ہے .انہوں نے کمیونٹی کے سرگرم اور سرکردہ اراکین سے استدعا کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں .آل پاک یورپ پریس کلب کی بنیاد رکھی جاتے.جہاں یورپ کے تمام اخبارات کے نمایندگان کی تفصیلات درج ہوں اور انکی پیشہ وارانہ تربیت کیلئے ماہانہ وار کلاسز کا اجرا کیا جاتے .اسطرح باہمی تبادلہ خیال کے علاوہ صحافیوں کو درپیش مسائل کو سمجھنے اور انکے حل کی راہیں ہموار کرنے میں مدد ملے گی اور ان صحافیوں کی حوصلہ افزائی کے مواقع بھی نکلیں گےجو یہاں اپنی محنت مزدوری اور بےپناہ مصروفیات کو چھوڑ کر بغیر کسی لالچ کے محض خدمت خلق اور جہاد بلقلم کا جذبہ لیکر کمیونٹی کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں .انہوں نے اپنے ایک انٹرنیٹ پیج overseas journalist forum کا ذکر کیا جہاں پیتیس سے زائد صحافی موجود ہیں یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کاوش ہے.
Monday, September 24, 2012
Sunday, September 16, 2012
ذیابطیس سے چھاتی کے سرطان کا زیادہ امکان
ذیابطیس اور چھاتی کے سرطان کو اکثر وزن میں زیادتی سے منسلک کیا جاتا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابطیس ٹائپ ٹو میں مبتلا بڑی عمر کی خواتین میں چھاتی کا سرطان ہونے کا امکان ستائیس فی صد زیادہ ہوتا ہے
برٹیش جرنل آف کینسر نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بین الاقوامی محققین کی ایک ٹیم نے ذیابطیس اور چھاتی کے سرطان کے درمیان ممکنہ تعلق کو سمجھنے کے لیے چالیس مختلف تحقیقات کا جائزہ کیا۔
ان تحقیقات میں چھاتی کے سرطان میں مبتلا چھپن ہزار خواتین نے حصہ لیا تھا۔
وزن کا زیادہ ہونا بھی دونوں بیماریوں سے منسلک ہے۔ تاہم سرطان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابطیس اور چھاتی کے سرطان کے درمیان براہِ راست تعلق کا امکان بھی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ذیابطیس ٹائپ ٹو میں مبتلا کم عمر کی خواتین یا ٹائپ ون ذیابطیس کی خواتین کا چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا کوئی غیر عمومی امکان نہیں ہے۔
اس رپورٹ پر کام کرنے والی ٹیم کے سربراہ اور انٹرنیشنل پریونشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے صدر پیٹر بوئل کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اس وقت یہ معلوم نہیں کہ ٹائپ ٹو کی ذیابطیس چھاتی کے سرطان کا امکان کیوں بڑھا دیتی ہے۔‘
’ایک طرف تو ان دونوں بیماریوں کو اکثر وزن میں زیادتی سے منسلک کیا جاتا ہے تاہم اس بات کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا کہ ذیابطیس کے اثرات چھاتی کے سرطان کو جنم دے سکتے ہیں۔‘
’کینسر ریسرچ یو کے‘ میں نرسوں کے معلوماتی سربراہ مارٹن لیڈوک کا کہنا ہے کہ ’اس رپورٹ سے یہ واضح نہیں کہ بڑی عمر کی خواتین میں ذیابطیس براہِ راست چھاتی کے سرطان کا خطرہ بڑھتی ہے تاہم زیادہ وزن دونوں بیماریوں کا امکان پیدا کرتا ہے، اس وجہ سے خواتین کے لیے وزن پر قابو پانا ہی بہتر ہے۔‘
ایپل نے آئی فون 5 لانچ کر دیا
مشہور ٹیکنالوجی کمپنی اپیل نے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں ایک تقریب کے دوران آئی فون کا نیا ورژن آئی فون 5 متعارف کروایا ہے۔یہ فون ماضی کے آئی فون کے مقابلے میں قدرے لمبا ہے اور فور جی نیٹورک سے ہم آہنگی رکھتا ہے۔ آئی فون کے مقابلے میں بڑی سکرین والے اس فون میں صارفین کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ سکرین پر ’آئکنز‘ کی ایک اور قطار بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ایپل کا کہنا ہے کہ ان کا یہ نیا فون برطانیہ کے 4 جی ایل ٹی نیٹورک ای ای یعنی ( Everything Everywhere) پر بھی چل سکے گا۔ایپل کا کہنا ہے کہ نیا فون اکیس ستمبر سے مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔ایپل کا دعویٰ ہے کہ آئی فون 5 کی سکرین بالکل ایسی ہی ہے جیسے وائڈ سکرین ٹی وی کی ہوتی ہے۔لیکن ابھی بھی گیارہ سینٹی میٹر لمبی سکرین والے اس فون کا سائز ایپل کی حریف کمپنیوں کے سمارٹ فون جیسے نوکیا، سیم سنگ، موٹورولا، اور ایل جی کے فون سے چھوٹا ہی ہے۔اس فون میں کیمرہ آئی فون 4 کی طرح آٹھ ميگا پکسل کا ہی ہے۔ایپل کی عالمی مارکیٹنگ کے نائب صدر فل شلر کا کہنا ہے کہ اس فون میں بعض ایسے سافٹ ویئر ہیں جس کی وجہ سے کم روشنی میں بھی اس فون کا کیمرہ بہترین تصاویر کھینچے گا۔اس فون میں نوکیا لوما92 کی طرح وائرلیس طریقے سے فون چارج کرنے کی سہولت نہیں ہے۔یہ فون سولہ جی بی، بتیس جی بی، اور چونسٹھ جی بی کے میموری کارڈ کے ساتھ فروخت کیا جائے گا۔اطلاعات کے مطابق اس فون کے بنیادی ماڈل کی قیمت برطانیہ میں پانچ سو انتیس پاؤنڈ ہوگی جبکہ اگر اس فون کو کسی نیٹورک کے کانٹریکٹ سے ساتھ خریدا جائے گا تو اس کی قیمت کم ہو جائے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی فون 5 میں ایپل کی حریف کمپنیوں کے سمارٹ فونز کے مقابلے میں سہولیات کم ہیں لیکن پھر بھی یہ فون لوگوں کو بے حد پسند آئے گا اور صارفین میں کافی مقبول ہوگا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فون کی فروخت مستقبل میں ایپل کمپنی کی مالیت کا فیصلہ کرے گی یعنی اس کی فروخت ایپل کی آمدنی کا اہم حصہ ہوگی۔
جنگ 1971: حقیقتیں اور افسانے
نام کتاب: ڈیڈ ریکوننگ، میموریز آف دی 1971 بنگلہ دیش وار
(شمارِ کُشتگاں، جنگ 71
ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان۔ پی او بکس 8214، کراچی۔ 74900
سرمیلا بوس کی یہ کتاب ان تمام باتوں کی تردید کرتی ہے جو اب تک 1971 کی جنگ کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں نہ تو اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کے مطابق تھا اور نہ ہی یہ کہ تشدد صرف پاکستانی فوجیوں نے کیا تھا۔
سرمیلا کہتی ہیں کہ انھیں 1971 کی جنگ کے حوالے سے جو دستاویزات دیکھنے کو ملیں وہ اتنی کمزور تھیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی دعویٰ کرنا کسی طرح دانشمندی نہیں۔
وہ پاکستانی فوج پر الزامات کی صفائی تو پیش نہیں کرتیں لیکن یہ اصرار ضرور کرتی ہے کہ پاکستانی فوج پر نسل کشی، جنسی زیادتیوں اور تشدد کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ آپریشن میں شریک تمام فوجیوں پر یکساں نہیں لگائے جا سکتے۔
ان کے اس موقف کے حق میں کتاب میں ایسے بنگالی مردوں اور عورتوں کے انٹرویو بھی ہیں جو بتاتے ہیں کہ پاکستانی فوج میں جو بلوچ تھے ان کا سلوک بنگالیوں سے اچھا تھا۔ ان انٹرویوز سے ایسا لگتا ہے کہ اس زمانے میں ’بلوچ‘ یا ’بلوچی‘ بنگالیوں کے لیے ایک ایسی اصطلاح بن گئی تھی جس کے معنی تھے ’ اچھا یا تحفظ دینے والا فوجی‘۔
سرمیلا بوس آپریشن اور جنگ کے دوران ہونے والے پروپیگنڈے اور افواہوں کا بھی ذکر کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ڈھاکہ میں 14 اور 15 دسمبر کو آزادی کی حامی بنگالی دانشوروں کو ان کے گھروں سے اغوا کیے جانے اور بعد میں قتل کیے جانے میں بھی پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس سلسلے میں انھوں نے نہ صرف پاکستانی فوجی افسروں کے تردیدی بیانات نقل کیے ہیں بلکہ مارے جانے والے دانشوروں کے خاندانوں کے وہ بیانات بھی پیش کیے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کو گھروں سے لے جانے والے وہ مسلح سویلین تھے جو فوج کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ ’البدر‘ کا نام لیتے ہیں۔ جو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نوجوانون رضاکاروں کی تنظیم تھی اور بنگالیوں پر ہی مشتمل تھی۔
اسی طرح وہ 26-25 مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ویمن ہاسٹل پر پاکستانی فوجی حملے کا ذکر کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ خبر اڑی لیکن درست ثابت نہ ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ یکم اپریل کو جیسور میں پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل کی عالمی ذرائع ابلاغ سے بھی سامنے آئی لیکن حقیقت یہ تھی کہ جیسور میں آزادی کے حامی بنگالیوں نے مغربی پاکستانیوں کو مارا تھا۔ وہ ایسے کئی واقعات کی مثالیں دیتی ہیں۔
مصنفہ: سرمیلا بوس
ان کا کہنا ہے کہ علیحدگی کے حامی بنگالی مغربی پاکستانی فوجیوں کو انویڈر یا درانداز کہتے تھے جبکہ اس جنگ میں درانداز صرف ہندوستان تھا۔
سرمیلا نے جو بیش تر حوالے دیے ہیں وہ مختلف لوگوں کے انٹرویو ہیں۔ یہ انٹرویو دینے والے پاکستانی بھی ہیں اور بنگالی بھی۔ اس کے علاوہ وہ ان خبروں اور مضامین پر بھی انحصار کرتی ہیں جو جنگ کے دوران اور بعد میں، جنگ کے حوالے سے بنگلہ دیش، ہندستان اور پاکستان میں شائع ہوئے۔ پھر کتاب میں حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کے حوالے بھی ہیں۔ یہ رپورٹ جنگ کے بعد پاکستان میں ایک تحقیقاتی کمیشن نے تیار کی تھی لیکن پاکستان ہی میں اسے ایک عرصے تک شائع نہیں کیا گیا اور پاکستان میں ایسے حلقے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس کمیشن کی رپورٹ اب من و عن سامنے نہیں آئی اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں جس نوع کا پاور سٹرکچر ہے اس میں فوج اور اس کے اقدام کے حوالے سے کوئی غیرجانبدار تحقیق کی نہیں جا سکتی۔
سرمیلا نے اس کتاب کی تیاری میں ایک عرصہ صرف کیا ہے۔ میں نے اس حوالے سے ان کا ایک مضمون سب سے پہلے ہندوستان کے ایک انتہائی معتبر رسالے اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں پڑھا تھا۔ یہ مضمون اکتوبر 2005 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں بھی انھوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ’ہر چند کہ 1971 کا تنازع پاکستان اور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) کا انتہائی جذباتی معاملہ ہے، لیکن نو ماہ تک جاری رہنے والی اس خانہ جنگی کا اب تک ایسا منظم مطالعہ نہیں کیا گیا جیسا کہ کیا جانا چاہیے۔ اب تک عام طریقہ یہ رہا ہے کہ اس تنازع میں زیادہ توجہ بنگالیوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں پر دی جاتی ہے یا اسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بہرطور، مشرقی پاکستان 1971 میں ایک ایسا میدان جنگ تھا جس میں کئی متشدد فریق ایک ساتھ سرگرمِ عمل تھے، ان میں شدت پسند باغی بھی تھے، تشدد پر آمادہ ہجوم بھی، شہریوں کے خلاف فوجی آپریشن بھی کیا جا رہا تھا اور ایسی شہری دہشت گردی بھی جاری تھی، جو ہندستان اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ 1971 کے تنازعے میں تشدد کی اسی ثقافت نے بعد میں بنگلہ دیش کی تاریخ کے بیش تر تناظر کو شکل دی۔ 1971 کے تنازعے کو سمجھنے کے لیے ایک ایسا طریقہ انتہائی اہم ہے جس میں پوری احتیاط سے کام لیا جائے اور جو شہادتوں پر مبنی ہو لیکن یہ تبھی ہو سکتا ہے جب تنازعے کے تمام فریق کسی طور ہم آہنگ ہو جائیں‘۔
سرمیلا برصغیر کے معروف رہنما سبھاش چندر بوس کی پوتی ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کولکتہ میں حاصل کی اور ہاورڈ یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ لی اور اب اوکسفرڈ یونیورسٹی سے بطور سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔
سرمیلا کی یہ کتاب پاکستان میں بے لگام قوم پرستانہ جذبات رکھنے والوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے خوشی کا باعث ہو گی کیونکہ سرمیلا بوس ایک بنگالی ہیں، ہندوستانی ہیں اور ہندو بھی اور ان کی ان شناخت پر کوئی بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ یہی بات ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ان لوگوں کو ضرور مشتعل کرے گی جو قوم پرستی کا کاروبار کرتے ہیں یا وہ جو تاریخ کے مقبول سیاسی بیانیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
کتاب کے سلسلے میں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ سرمیلا نے جن شواہد کو بنیاد بنایا ہے، کیا انھیں تاریخی شواہد کہاجا سکتا ہے؟
Tuesday, August 14, 2012
Friday, August 10, 2012
پیرس :ابرار کیانی کی طرف سے کیانی ریسٹورینٹ میں افطار ڈنر کا اہتمام ؛پوٹھواریوں کی بھر پور شرکت (شہزاد وارثی ) گزشتہ شام پیرس کی معروف سماجی و کاروباری شخصیت ابرار کیانی کی طرف سے کیانی ریسٹورنٹ پیرس میں ایک گرینڈ افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا .جس میں انکی دعوت پر پوٹھوہاری معززین نے بھر پور شرکت کی ؛افطار سے قبل خصوصی دعا مانگی گئی افطاری کی بعد قریب ہی ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کی بعد کھانا اور چاۓ پیش کی گئی .ہنس مکھ طبیعت اور سحر انگیز شخصیت کے مالک ابرار کیانی اکثر کمیونٹی کو قریب لانے کے لئے پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں اپنی ملنساری اور حسن سلوک کی وجہ سے پہلی ہی ملاقات میں وہ انسان کے دل میں گھر کر لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود لوگ انکی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ انکے ساتھ بھر پور شریک ہوتے ہیں ..
Wednesday, August 8, 2012
Friday, August 3, 2012
Sunday, July 29, 2012
Sunday, July 22, 2012
Saturday, July 21, 2012
سیاحتی مقام کے طور پر سوات کی رونقیں بحال
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک بڑے سیاحتی مرکز کی حیثیت
رکھنے والا ضلع سوات گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پہلے دہشت گردی، پھر دہشت گردی کے
خلاف جنگ اور پھر دو ہزار دس میں سیلاب کی زد میں رہا۔ لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا
کہ یہ وادی ان اثرات سے باہر نکل رہی ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور سکیورٹی کے لیے تعینات فوج سوات کو ایک پر
امن اور سیاحت کے لیے موزوں مقام کے طور پر پیش کر رہی ہے۔کالام ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر ملک عبدالودود جو خود بھی ہوٹل کے مالک ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ سوات میں سیاحت بحال ہو چکی ہے۔ خراب سڑکوں اور مواصلات کا نظام نہ ہونے کے با وجود اس مرتبہ پچھلے سال کے مقابلے میں کافی زیادہ سیاح آ رہے ہیں اور بقول ان کے انھوں نے پہلے کبھی اتنا رش نہیں دیکھا۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی فوج نے سکیورٹی کا اچھا خاصا انتظام کیا ہے اور راستوں کو بھی اس حد تک ہموار کر دیا ہے کہ موٹر کار اور دوسری چھوٹی گاڑیوں میں بہت زیادہ لوگ آ رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو تو ہوٹلوں میں رہائش کے لیے جگہ بھی نہیں مل پا رہی
امریکہ: ایڈز سے بچاؤ کی دوا کی منظوری
امریکہ میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے پہلی بار
ایچ آئی وی یا ایڈز کے انفیکشن کو روکنے میں مدد فراہم کرنے والی دوا ’ٹروویدا‘ کی
منظوری دی ہے۔
امریکی ماہرین نے ٹروویدا کی منظوری منگل کو دی۔ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ ٹروویدا کو ایسے افراد استعمال کر سکیں گے جن میں ایچ آئی وی یا ایڈز کے انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہو۔
واضح رہے کہ امریکہ میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایڈوائزی کمیٹی نے رواں برس مئی میں تین کے مقابلے میں انیس ووٹوں سے ٹروویدا کی منظوری دی تھی۔
امریکہ میں ایچ آئی وی کمیونٹی میں صحت کے شعبے سے متعلق چند کارکنوں اور گروپوں نے ٹروویدا کی منظوری کی مخالفت کی تھی۔
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ایک بیان میں زور دیتے ہوئے کہا کہ ٹروویدا کو آئی ایچ آئی یا ایڈز کے منصوبے کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے جس میں کنڈوم کا استعمال اور ایچ آئی وی کے باقاعدہ ٹیسٹ کروانا شامل ہے۔
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ایچ آئی وی میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے پہلے ہی ٹروویدا کے استعمال کی منظوری دے چکی ہے۔
سنہ دو ہزار دس میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ ’ٹروویدا‘ کے استعمال سےصحت مند افراد میں ایچ آئی وی میں کمی ہوئی ہے۔
Friday, July 20, 2012
رمضان المبارک کی خاص ڈش : گولا کباب
اجزاء
قیمہ ایک کلو
ادرک لہسن پسا ہوا دو کھانے کے چمچ
پیاز باریک کٹی ہوئی دو عدد درمیانی
نمک حسب ذائقہ
لال مرچ پسی ہوئی دو کھانے کے چمچ
سفید زیرہ ایک چائے کا چمچ
ثابت دھنیا ایک کھانے کے چمچ
گرم مصالحہ پسا ہوا دو کھانے کے چمچ
کچا پپیتا پسا ہوا دو کھانے کے چمچ
دہی آدھی پیالی
کوکنگ آئل آدھی پیالی
سجانے کے لیئے
پیاز کے لچھے حسب پسند
لیموں کے قتلے حسب پسند
ترکیب
قیمہ میں ادرک ،لہسن نمک ،پیاز ،لال مرچ ،زیرہ دھنیا گرم مصالحہ اور پپیتا ملا کر پیس لیں ۔
دو سے تین گھنٹے فریج میں رکھنے کے بعد اس میں دہی اوردو کھانے کے چمچ کوکنگ آئل شامل کر لیں ۔
ایک سائز کے گول کباب بنا کر سیخوں پر لگائیں ۔دہکتے ہوئے کوئلوں یا گرل پر سینک لیں ،جب پکنے پر آجائے تو ململ کے کپڑے یا ٹشو کی مدد سے کوکنگ آئل لگا تے جائیں ۔
پریزنٹیشن
پیاز کے لچھے اور لیموں کے قتلوں سے سجا کر رائتے کے ساتھ پیش کریں
|
Saturday, July 14, 2012
ہمارا دوسرا دماغ ہمارے معدے میں ہے
مائیکل موسلے
بی بی سی ٹی ویsource
ہمارا معدہ ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کئی کے لیے ایک تاریک معمہ ہو
لیکن ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کس طرح سے معدہ میں آنتیں ہمارے رویے اور
بھوک کو کنٹرول کرتی ہیں۔
اب ہمارے میں سے بہت سارے اپنے معدہ میں انہضام نظام کے عمل کو دیکھ سکتے
ہیں۔لندن کے سائنس میوزیم میں لوگ کے سامنے میں نے اپنے ہی معدہ کو ایک بڑی سکرین پر دیکھا۔
ناشتے میں دلیہ کھایا اور بڑی سکرین پر دیکھا کہ کس طرح سے یہ معدے میں ٹوٹتا ہے اور ایسڈ میں تبدیل ہوتا ہے اور کس طرح سے چھوٹی آنت میں ایک کریمی گودے ( کایم) کی طرح جاتا ہے۔
ہماری آنت میں دس کروڑ کے قریب برین سیلز ہوتے ہیں اور یہ تعداد بلی کے دماغ میں پائے جانے والے سیلز کے برابر ہے۔
میں نے ایک ننھا سا کمیرہ گولی کی طور پر نگلا تاکہ یہ سارا دن عمل انہضام نظام سے تصاویر ایک بڑی سکرین پر بھیجتا رہے۔
اس کا پہلا پڑاؤ میرا معدہ تھا یہاں پیچیدہ عمل قابو میں تھا اور اس کو بعض اوقات چھوٹا دماغ کہا جاتا ہے، اس میں نیورونز کا ایک نیٹ ورک ہے جو معدے اور آنت کو کنٹرول کرتا ہے۔
یہ تمام نیورونز انہضام نظام کو ہمارے دماغ سے قریبی رابطے میں رکھتے ہیں اور اس میں ’واگس اعصاب‘ بھی شامل ہوتے ہیں جو اکثر ہماری جذباتی کیفیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب ہم اپنے معدے میں گدگدی محسوس کرتے ہیں تو اس وقت معدے میں موجود دماغ کھوپٹری میں موجود دماغ سے بات کر رہا ہوتا ہے۔
جب ہم خوف یا ڈر محسوس کرتے ہیں تو اس وقت خون آنت سے پٹھوں میں منتقل ہو جاتا ہے اور اس صورت میں ہمارا معدہ احتجاج کر رہا ہوتا ہے۔
جب ہم بہت زیادہ کھانا کھاتے ہیں تو اس وقت ہمارا معدہ تقریباً چالیس فیصد بڑھ جاتا ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ معدے میں پھیلے عضو دماغ کو پیغام دیتے ہیں کہ معدہ بھر چکا ہے اور اب کھانا ختم کرنے کا وقت ہے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ بھوک کے پیغامات ہمارے معدے سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ ان سے بہت زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب آپ زیادہ کھانا کھاتے ہیں تو آرام کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خون کی ایک تہائی مقدار آپ کی آنت میں منتقل ہو جاتی ہے تاکہ وہ اپنا ضروری کام کر سکے۔ اسی لیے ہمیں بچپن میں کہا جاتا تھا کہ پہلے خوراک ہضم ہونے دیں اور اس کے بعد ہی کوئی زور لگانے والا کام کرنا ہو تو کریں۔
’سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کی بڑی قدر‘
سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ
’سرن ‘سے منسلک ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق سرن لیبارٹری کے ساتھ تیس کے قریب
پاکستانی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ انیس سو چورانوے میں سرن
لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا اور اس وقت سے اب تک تقریباً سو
سے زائد سائنسدان سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔سرن کے ہیڈرون کولائیڈر منصوبے سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق ایک وقت میں لیبارٹری میں پندرہ کے قریب سائنسدان کام کرتے ہیں اور باقی سائسندان پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو ویلیو ایڈیشن کہا جاتا ہے۔
’سرن سے مختلف مواد تحقیق کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہاں پاکستان میں اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف ماڈلز تیار کر کے واپس بھیجے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق نیشنل سینٹر فار فزکس اور پاکستان کے جوہری ادارے ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت اور قابلیت کی یورپ میں، خاص طور پر سرن سے متعلق کام کے حوالے سے بہت قدر کی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے چالیس سائنسدان سرن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کی تعداد تیس ہے۔
’سرن میں بھارتی سائنسدان صرف ایک منصوبے میں جبکہ پاکستانی سائنسدان دو پراجیکٹس’سی ایم ایس اور ایلس‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس شعبے کو( Experimental High Energy Physics) کہتے ہیں اور یہ سرن کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرن میں دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے سائنسدان کام کرتے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اس سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
’سرن میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں جو کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں، اور ان آلات پر ہمیں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘
ڈاکٹر حفیظ ہورانی سے سیکھے گئے تجربات اور علم کو دیگر پاکستانی سائنسدانوں تک منتقل کرنے کے لیے اس شعبے کو نصاب میں شامل کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
Saturday, July 7, 2012
وقت میں ایک سیکنڈ کا اضافہ
سنیچر کی رات دنیا بھر کی الیکٹرانک گھڑیوں میں ایک سیکنڈ کا
اضافہ کیا گیا ہے تاکہ وہ زمین کی روزانہ گردش سے تال میل برقرار رکھ سکیں۔
گھڑیوں کے ایجاد سے پہلے لوگ وقت کا اندازہ آسمان میں سورج کے مقام سے لگاتے تھے
لیکن جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی، یہ پتہ چلا کہ زمین کو سورج کے گرد اپنا ایک چکر
مکمل کرنے میں ٹھیک چوبیس گھنٹے نہیں لگتے ہیں اس تاخیر کی وجہ مدوجزر اور موسمیاتی و ارضیاتی تبدیلیاں ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مقررہ وقت کے بعد دنیا بھر کی گھڑیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ حکومتیں اور سائنسدان وقت اس تبدیلی کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے دنیا بھر کے کمپیوٹر نیٹ ورکس کو خطرہ ہو سکتا ہے.
تاہم اس عمل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ قدرتی نظام میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہوگا۔ ان کے مطابق اگر اس ایک سیکنڈ کا اضافہ نہیں ہوتا تو وقت ناپنے والی ہماری گھڑیاں اور زمین کی گردش کے وقت کے درمیان کا فاصلہ بڑھ جائےگا جو مستقبل میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
دنیا میں وقت ناپنے کے دو بین الاقوامی طریقے مقرر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک بین الاقوامی ایٹمی وقت جو دنیا بھر میں پھیلی ایٹمی گھڑیوں پر مبنی ہے اور دوسرا يونورسل ٹائم 1 جو گرينچ مین ٹائم کا جانشین ہے جس میں وقت کا تعین آسمان میں سورج کے مقام سے کیا جاتا ہے۔
پہلے طریقے کے مطابق ایٹمی گھڑیوں کو قریب ہر اٹھارہ ماہ بعد بہتر کیا جاتا ہے تاکہ وقت ناپنے کے طریقوں میں ایک سیکنڈ سے زیادہ کا فرق نہ آئے۔
Friday, July 6, 2012
Friday, June 29, 2012
Saturday, June 23, 2012
Friday, June 22, 2012
Sunday, June 17, 2012
Saturday, June 16, 2012
sourc voa
بجلی کہاں گئی ؟
ان دنوں بجلی گرڈ سٹیشنوں اور تاروں میں نہیں ہے، لوگوں کے جذبات میں ہے۔ جب پنکھے نہیں چلتے اور بلب نہیں جلتے تو وہ سڑکوں پر آ ٹائر جلانے لگتے ہیں۔مگر ٹائر جلنے سے دھواں پیدا ہوتا ہے بجلی نہیں ۔
More Sharing Services
بجلی کہاں گئی؟ اس چھوٹے سے سیدھے سادھے سوال کے درجنوں ٹیڑھے اور الجھے ہوئے جواب دیے جاتے ہیں اور اکثر جواب ایسے ہوتے ہیں کہ سننے والا چلچلاتی دھوپ میں سڑکوں پرجاکر نعرے لگانے لگتاہے۔
بجلی کہیں نہیں گئی۔ وہ اب بھی اس کی اتنی مقدار میں موجود ہے کہ ملک کی ساری ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی گنجائش 20 ہزار میگاواٹ سے زیادہ اور طلب 17 ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔مگر چونکہ مانگ کے مطابق بجلی پیدا نہیں کی جارہی اس لیے ملک کے کئی حصوں میں اٹھارہ سے بیس گھنٹوں تک اس کی فراہمی بند رہتی ہے۔
پاکستان میں بجلی حاصل کرنے کے تین اہم ذریعے ہیں، پانی، تیل اور گیس اور جوہری توانائی۔ اگر پن بجلی گھر اپنی پوری استعطاعت پر کام کریں تو چھ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی حاصل ہوسکتی ہے لیکن پانی کی کمی، اور فنی خرابیوں کے باعث اس کی پیداوار آدھی سے بھی کم ہے ۔ جس سے تھرمل بجلی گھروں پر دباؤ مسلسل بڑھ رہاہےاور کل پیداوار میں اس کا حصہ کئی بار70 فی صد تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنا انتہائی مہنگا پڑرہاہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنا اور روپے کی قدر مسلسل کم ہونا۔ ایک اندازے کے مطابق ان دنوں تیل سےپیدا کی جانے والی بجلی کے ایک یونٹ پر 20 روپے کے لگ بھگ خرچ آرہاہے ۔ جب کہ اس کو بیچا جاتا ہے کہیں کم قیمت پر۔ اور یہ فرق چکانا پڑتا ہے حکومت کو سرکاری خزانے سے۔
ماہرین کا کہناہے کہ بجلی کی کل ضرورت کا ایک تہائی سے زیادہ تھرمل پاور پر انحصار معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتاہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ ملک پیداواری لاگت میں کمی کی خاطر پانی، کوئلہ ، گیس ،تیل ، نیوکلیئر اور متبادل ذرائع سے ملاجلا کر بجلی پیدا کرتے ہیں اور تھرمل پاور پر زیادہ دباؤ نہیں پڑنے دیتے۔ جب کہ پاکستان میں صورت حال اس کے الٹ ہے۔
مشرف حکومت نے اپنے آخری سال میں بعض دوسرے اخراجات کے لیے پرائیویٹ اور سرکاری تھرمل پاور یونٹوں کو سرمائے کی فراہمی روک دی تھی۔ موجودہ دور میں بھی انہیں پوری ادائیگیاں نہیں کی جارہیں جس ے میڈیا رپورٹس یہ بقایاجات چارسو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ جب پیسے نہیں ملتے تو آئل کمپنیاں تیل اورپرائیویٹ بجلی گھر اپنے جنریٹر بند کردیتے ہیں۔
پانی سے بجلی کوڑیوں کے مول پڑتی ہے۔ مگر مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان میں آبی منصوبوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ کالا باغ کے علاوہ بھی ایسے کئی علاقوں کی نشاندہی ہوچکی ہے جہاں سےپن بجلی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح پنجاب میں، جہاں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے، چھوٹےپیمانے اور مقامی سطح پر بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔معاشی ترقی اور سستی بجلی کےلیے آبی وسائل کے استعمال پر اعتماد سازی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
کوئلے سے بجلی کا حصول بھی نسبتاً سستا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اگرچہ کوئلہ معیاری نہیں ہے لیکن پاکستانی سائنس دانوں نے اسے براہ راست گیس میں بدل کر بجلی بنانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔اس منصوبے کی حمایت اور مخالفت کے باوجود مستقبل میں اس قدرتی ذخیرے سے بڑے پیمانے پر بجلی حاصل ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
پاکستان میں کئی تھرمل یونٹ قدرتی گیس سے چلائے جارہے ہیں مگر گیس پر مختلف شعبوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ اور طویل عرصے سے نئے ذخائر کی تلاش پر سنجیدگی سے توجہ نہ دینے کے باعث گیس کا بھی بحران پیدا ہوچکاہے۔ ان دنوں بیرونی ممالک سے گیس کی درآمد کے منصوبوں پر زیادہ دھیان دیا جارہاہے، لیکن سستی بجلی کے لیے مقامی وسائل کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔
جوہری بجلی بھی تھرمل پاور سے سستی ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت دوجوہری بجلی گھر ہیں جن سے کل ملکی پیداوار کا محض دو فی صد حاصل ہورہاہے۔حکومت 2030ء تک ساڑھے آٹھ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی جوہری پلانٹس سے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن دوسری جانب دنیا بھر جوہری بجلی گھروں کی تنصیب پر مسلسل بڑھتے ہوئے تحفظات ان منصوبوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے طویل ساحلی اور صحرائی علاقوں میں ہوائی چکی(ونڈ ملز) لگانے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اسی طرح ملک کے میدانی علاقوں میں سارا سال سورج چمکتا ہےجس سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ توانائی کے یہ متبادل ذرائع چھوٹے پیمانے پر دیہاتوں اور قصبوں کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردا ر ادا کرسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کم ازکم پانچ ہزار دیہاتوں کو ہزاروں میل لمبی تاریں بچھائے بغیر ونڈملز کے ذریعے مقامی طور پرسستی بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالتے ہی بجلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کرائے کے بجلی گھر وں کا منصوبہ شروع کیاتھا۔ لیکن کئی حلقوں نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیل سے چلنے والے پرانے جنریٹر اس مسئلے کی سنگینی میں مزید اضافہ کریں گے، کیونکہ تھرمل پاور یونٹ تیل کی کمی کے باعث ہی اپنی استعداد کے مطابق نہیں چل رہے۔جب کہ اصل مسئلہ بجلی کی کمی کا نہیں بلکہ بجلی گھروں سے پوری پیدوار لینے میں ناکامی کا ہے۔
پاکستان میں بجلی کے مسئلے سے منسلک ایک اہم پہلو بڑے پیمانے پر بجلی کی چوری اور اس کی ترسیل میں خرابیاں ہیں جس کے سبب محتاط اندازوں کے مطابق 30 فی صدسے زیادہ بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔ ان پر قابو پانے سے نہ صرف پیداواری اخراجات کم ہوں گے بلکہ مزید مالی وسائل بھی مہیا ہوسکیں گے۔
اصل مسئلہ بجلی کا نہیں ہے بلکہ تیل کمپنیوں اور پرائیویٹ بجلی گھروں کے اربوں روپے کے بقایاجات کاہے ۔ لیکن یہ ادائیگیاں بھی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہیں کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ملک مہنگی تھرمل بجلی پر انحصار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)