سیاحتی مقام کے طور پر سوات کی رونقیں بحال
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک بڑے سیاحتی مرکز کی حیثیت
رکھنے والا ضلع سوات گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پہلے دہشت گردی، پھر دہشت گردی کے
خلاف جنگ اور پھر دو ہزار دس میں سیلاب کی زد میں رہا۔ لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا
کہ یہ وادی ان اثرات سے باہر نکل رہی ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور سکیورٹی کے لیے تعینات فوج سوات کو ایک پر
امن اور سیاحت کے لیے موزوں مقام کے طور پر پیش کر رہی ہے۔کالام ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر ملک عبدالودود جو خود بھی ہوٹل کے مالک ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ سوات میں سیاحت بحال ہو چکی ہے۔ خراب سڑکوں اور مواصلات کا نظام نہ ہونے کے با وجود اس مرتبہ پچھلے سال کے مقابلے میں کافی زیادہ سیاح آ رہے ہیں اور بقول ان کے انھوں نے پہلے کبھی اتنا رش نہیں دیکھا۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی فوج نے سکیورٹی کا اچھا خاصا انتظام کیا ہے اور راستوں کو بھی اس حد تک ہموار کر دیا ہے کہ موٹر کار اور دوسری چھوٹی گاڑیوں میں بہت زیادہ لوگ آ رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو تو ہوٹلوں میں رہائش کے لیے جگہ بھی نہیں مل پا رہی
۔‘
سوات میں سیاحت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کے لیے افواج پاکستان نے کالام کے مقام کے پر موسم گرما دو ہزار گیارہ اور بارہ میں خصوصی سیاحتی میلوں کا انعقاد بھی کیا۔
ضلع سوات میں فضاگٹ، مدین، بحرین اور کالام سیاحت کے لیے روایتی طور پر مشہور مقامات ہیں۔
شمس خان کالام کے ایک ہوٹل میں سپروائزر ہیں انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ خاصی تعداد میں سیاح ملتان، لاہور، پشاور، اسلام آباد، چنیوٹ، چارسدہ، خیبر ایجنسی اور کراچی جیسے علاقوں سے آئے ہیں۔ لوگ اپنے خاندانوں کے ہمراہ کالام اور مہوڈنڈ کی ٹھنڈی ہوا اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
نوجوان اور مرد حضرات گروہوں کی شکل میں سارے غم اور طالبان کا خوف بھلا کر پشتو اور انڈین موسیقی کی تھاپ پر ناچ رہے تھے۔
منعقدہ میلے میں موسیقی، میجک شو، پولو کے مقابلے، پیراگلائیڈنگ، آتش بازی کا انتظام تھا اور ہینڈی کرافٹ اور فوڈ سٹال لگائے گئے تھے جس سے بچے، خواتین، مرد سبھی محظوظ ہو رہے تھے۔
کچھ خواتین اور مرد سیاحوں نے بتایا کہ خراب سڑکوں اور جگہ جگہ سکیورٹی چیک پوسٹوں کی وجہ سے سفر تھکا دینے والا تھا لیکن کالام پہنچ کر وہ اچھا محسوس کر رہے ہیں اور بہت خوش ہیں۔
عاصم فاروقی اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد سے کالام آئے ہیں سوات کے حالات اور اپنے سفر کے بارے میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہم نکلنے لگے تو لوگ کہہ رہے تھے کہ حالات ٹھیک نہیں لیکن ہم چل پڑے راستے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ یہاں سب ٹھیک ہے موسم بہت اچھا ہے ہم انجوائے کر رہے ہیں۔‘
کچھ مرد، خواتین، نوجوان اور بچے دریائے سوات کے کنارے بیٹھ کر ٹھنڈے پانی اور دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔
گیلانی ریسرچ فاونڈیشن کے مطالعے کے مطابق اب بھی چھیالیس فیصد پاکستانی سکیورٹی کی وجہ سے چھٹیاں گزارنے کے لیے سوات جانا پسند نہیں کرتے جبکہ چالیس فیصد وہاں جانا چاہتے ہیں۔
جون کے اوائل میں کیے گئے سروے میں چاروں صوبوں سے دو ہزار چھ سو نواسی مرد و خواتین سے پوچھا گیا تھا کہ اگر ان کو موسم گرما میں لاٹری کے ذریعے سوات میں چھٹیاں گزارنے کا انعام ملے تو وہ جائیں گے یا نہیں؟ جس میں چھیالیس فیصد نے مثبت، چالیس نے نفی میں جواب دیے اور چودہ نے رائے کا اظہار نہیں کیا۔
اس سے پہلے کالام ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر ملک عبدالودود نے علاقے کی مشکلات کےحوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ’گزشتہ دو ڈھائی سال سے بجلی نہیں ہے یہ بحال ہونی چاہیے، سڑکیں تعمیر ہونی چاہیے اور مواصلات کا نظام بحال اور ہو تو لوگوں کو سہولت ہو جائے گی۔‘
جب بی بی سی نے خیبر پختوخوا اسمبلی میں اس علاقے سے منتخب نمائندے جعفر شاہ سے ان علاقے کے مشکالات کو حل کرنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’جلد کالام کو بجلی بحال کر دی جائے گی سڑک بھی تعمیر کر دی جائے گی اور مواصلات کا نظام ٹھیک کر دیا جائے گا۔‘
No comments:
Post a Comment