Saturday, December 31, 2011

 sorce voa urdu

انٹارکٹیکا کےتیزی سے پگھلتےگلیشئر

مغربی انٹارکٹیکا کے اس علاقے میں برف کے پگھلنے سے گزشتہ چند برسوں میں سمندر کی سطح میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے: ماہرین
فوٹو ASSOCIATED PRESS
انٹارکٹیکا
سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم دسمبر کے وسط میں انٹارکٹیکا جا رہی ہے جہاں وہ بر اعظم  میں گلیشئر کی  تیزی سے پگھلتی ہوئی برف کے بارے میں جائزہ لےگی۔
سائنسداں  برف کے ایک ٹکڑے پر اپنا کیمپ قائم کریں گے جو امریکہ کے  McMurdo ریسرچ سٹیشن سے 2600 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ ان کی اس ریسرچ اور مشاہدے سے مدد مل سکے گی کہ آب وہوا کی تبدیلی سے انٹارکٹیکا میں برف پگھلنے کے بارے میں درست انداز میں پیشگوئی کرنا ممکن ہو گا۔ اور، برف پگھلنے کے نتیجے میں آنے والی صدیوں  میں  عالمی سطح پر سطح آب میں اضافہ ہو گا۔
اس سائنسی مہم کا ہدف پائن آئی لینڈ گلیشئر ہے جس کی چوڑائی2300مربع میٹر اور یہ 500میٹر گہرا ہے ۔
مغربی انٹارکٹیکا کے اس علاقے میں برف کے پگھلنے سے گزشتہ چند برسوں میں سمندر کی سطح میں سات  فیصد اضافہ ہوا ہے۔یہ بات ناسا کے ماہر اور ٹیم لیڈر  نے بتائی ۔ وہ گلیشیئر ز کے ماہر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں انٹارکٹیکا میں برف پگھل رہی ہے اور سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں جانا ہے ۔اور اس سلسلے میں ہم نے پائن آئی لینڈ گلیشیئر کا انتخاب کیا ہے کیونکہ یہ سب سے زیادہ تیزی سے حرکت کرنے والا گلیشیئر ہے۔ اور یہی وہ گلیشیئر ہے جس کی برف سطح  سمندرکے نیچے تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اور ہمارے اندازے کے مطابق بعض مقامات پر ہرسال 100میٹر سے زائد برف پگھل جاتی ہے اور یہ شرح بے حد زیادہ ہے۔
اس مہم کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ آخر یہاں ہو کیا رہا ہے۔ بنڈ شیڈلر کہتے ہیں برف کے پگھلنے کی وجہ ہوا ۔ پانی اور برف کا باہمی امتزاج ہے جبکہ برف کی تہ کے نیچے خلا سےحرارت اٹھتی ہے۔ٹیم کو اب یہ معلوم کرنا ہے کہ برف کی تہ کے نیچے موجود خلا کی شکل کیسی ہے۔          
بنڈ شیڈلر کہتے ہیں کہ ہمیں اس کی تفصیل معلوم نہیں  اور ہم اپنے مشاہدے اور تجربے سے یہی معلوم کریں گے۔
سیٹلائیٹس گلیشیئر کی پیمائش کرتے ہوئے اس کی حرکت کو بھی نوٹ کر سکتے ہیں لیکن یہ برف کی تہ کے نیچے ہونے والی تبدیلی
 پتہ نہیں چلا سکے۔
بنیادی طور پر اس طریقے کے تحت اس 500میٹر  موٹے برف کے شیلف میں 27سینٹی میٹر حجم کا ایک سوراخ بنایا جائیگا  اور اس کے لئے پمپ کے ذریعے گرم پانی استعمال ہو گا۔ ایک طرح سے یہ انتہائی بنیادی طریقہ ہے لیکن اس کے لئے شدید محنت درکار ہے۔اسے برف کے اندر دور تک پہنچانے کے لئے ہلکا اور پورٹیبل ہونا چاہئے۔
جب ڈرل پانی کی تہ تک پہنچ جاتی ہے تو پھر سائنسدان ایک کیمرہ نیچے بھیجیں گے  جو برف کی تہ کے نیچے کی صورتحال کا مشاہدہ کرے گا اور  اسے سیل کر دیگا۔ Stanton کا کہنا ہے کہ یہ ٹیم پروفائلر نامی ایک آلہ بھی نصب کریگی جو ایک کیبل کی مدد سے اوپر نیچے حرکت کر سکتی ہے اور برف کے نیچے اور سمندر کی تہ سے اوپر کے  درجہ حرارت۔سیلن اور بہاو  کا تعین کر سکتی ہے۔
اور پھر گہرائی میں سنسروں اور altimeter کی مدد سے برف کے پگھلنے کی رفتار کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔

پائن آئی لینڈ گلیشیر پر موجود کیمپ ضرورت کے لئے توانائی ہوا  کی مدد سے چلنے والے جنریٹر ۔ شمسی پینل  اور  بیٹریاں استعمال کرے گا۔ اور سان ڈئیگو میں ان کے سکول میں موجود ان کے ساتھیوں سے رابطہ استوار رکھنے میں مدد  ملے گی۔
اور سٹینٹن کے مطابق برف کے پگھلنے کے بارے میں کی جانے والی تحقیق کی حکمت عملیمیں تبدیلی کر نا ممکن رہے گا۔ پائن آئی لینڈ گلیشیر کی اس مہم کے لئے نیشنل سائنس فاونڈیشن اور امریکہ کے خلائی ادارے  ناسا نے فنڈز فراہم کئے ہیںٕ۔ سمندر کے ماہر Timothy Stanton نے کہا ہے کہ اس تحقیق سے برف کے پگھلنے کی شرح  اور ہمارے سیارے پر تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کا علم ہو سکے گا۔

Monday, December 26, 2011

آئن سٹائن کے دماغ کی نمائش

نظریہ اضافیت کے بانی ڈاکٹر آئن سٹائن ایک صدی سے زیادہ عرصے سے جدید سائنس کے افق پر جگما رہے ہیں۔ انہیں بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس دان سمجھا جاتا ہے۔ ان کا انتقال 1955ء میں ہوا تھا، جس کے بعد پہلی بار ان کادماغ نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ماہرین کا کہناہے کہ آئن سٹائن کا دماغ عام انسانی دماغ سے قدرے مختلف ہے۔

البرٹ آئن سٹائن زندگی بھر کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے اور توانائی اور مادے کے تعلق کی گتھیاں سلجھانے کا سوچتے رہے، مگر اس دوران شاید انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ایک روز ان کا دماغ نمائش کے لیے رکھا جائے گا اور لوگ حیرت سے اسے دیکھ کر سوچیں گے کہ یہی ہے وہ دماغ جس نے ایٹم توڑ کر توانائی حاصل کرنے کانظریہ پیش کیا تھا اور جس نے کہا تھا کہ کائنات کی کوئی چیز روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتی۔
جدید طبیعاتی سائنس کی بنیاد آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت پر قائم ہے، مگر چند ماہ قبل یورپ میں قائم جوہری طبیعات کی دنیا کی سب سے بڑی زیر زمین تجربہ گاہ میں  یہ نظریہ باطل ہوچکاہے اور روشنی سے بھی تیزرفتار ذرات نیوٹرینو دریافت کرلیے گئے ہیں۔
ان دنوں امریکی شہر فلاڈلفیا کے مووٹرمیوزیم اینڈ ہسٹاریکل میڈیکل لیبارٹری میں آئن سٹائن کے دماغ کی نمائش جاری ہے۔ اس نمائش میں ان کے دماغ  کو46 ٹکڑوں کی شکل میں سلائیڈوں پر پیش کیا گیا ہے۔ 20 ویں صدی کے اس عظیم ترین سائنس دان کے دماغ کی یہ پہلی نمائش ہے۔
عجائب گھر کی کیوریٹر اینا ڈوڈی کا کہناہے کہ میوزیم میں آنے والے دماغ کی 45 سلائیڈوں کو اپنی اصلی حالت میں دیکھ سکتے ہیں جب کہ ایک سلائیڈ کو خردبینی عدسے کے ذریعے بڑا کرکے دکھانے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔

آئن سٹائن کا انتقال 1955ء میں 76 سال کی عمر میں ہواتھا۔ موت کے اسباب کا پتا لگانے کے لیے ڈاکٹر ٹامس ہاروے نے ان کا پوسٹ مارٹم کیاتھا۔اس دوران ڈاکٹر نے ان کا دماغ بھی معائنہ کے لیے باہر نکالا مگر وہ اسے دوبارہ کھوپڑی کے اندر رکھنے میں ناکام رہے اور انہوں نے دماغ کو اپنے ہی پاس رکھ لیا۔ ڈاکٹر ہاروے نے دعویٰ کیا تھا کہ آئن سٹائن کے بیٹے نے انہیں دماغ لے جانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس پر کھڑے ہونے والے تنازع میں ڈاکٹر ہاروے کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے، مگر عظیم سائنس دان کا دماغ انہی کی تحویل میں رہا۔
ڈاکٹر ہاروے کو اپنی ابتدائی  تحقیق سے پتا چلا کہ دماغ کے دونوں حصوں کو ڈھاپنے والی مخصوص تہہ موجود نہیں تھی اور دماغ کے خلیوں کا حفاظتی حصہ بھی نمایاں طورپر بڑا تھا۔ گویا آئن سٹائن کا دماغ عام افراد سے کچھ مختلف تھا۔
اس واقعہ کے کئی سال کے بعد ڈاکٹر ٹامس ہاروے نے آئن سٹائن کے دماغ کے کچھ حصے مزید تحقیق کے لیے نیورو سائنس دانوں کو بجھوائےتا کہ وہ یہ جائزہ لیں کہ دماغ کے کس حصے نے  انہیں 20 ویں صدی کا ذہین ترین سائنس دان بنانے میں مدد دی تھی۔
تفصیلی معائنے  اور متعدد تجربات سے گذرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ آئن سٹائن کے دماغ کے وہ حصے جن کا تعلق بول چال اور زبان سے ہوتا ہے، نسبتاً چھوٹے تھے ، جب کہ ریاضی اور سوچ بچار سے متعلق حصے ایک نارمل دماغ کی نسبت15 فی صد بڑے  تھے ۔ اس کے علاوہ نیوران، یعنی تمام دماغی امور انجام دینے والے خلیوں کے  گرد مخصوص حفاظتی تہہ ’  گلیال ‘ بھی عام افراد کی نسبت بڑی تھی۔

1999ء میں کینیڈا کے شہر ہملٹن  میں واقع مک ماسٹر یونیوسٹی میں دماغی  امور کے ماہرین کی ایک اور ٹیم کوتفصیلی معائنے سے پتا چلا کہ آئن سٹائن کے دماغ کے سامنے کے حصے  میں ایک خلا موجود تھا۔ ماہرین نے اندازہ لگایا کہ اس خلاکے باعث اس حصے میں واقع نیوران کی کاررکردگی نمایاں طور پر بہتر بنانے میں مدد ملی ۔اور اسی لیے ان کی سوچ ایک عام آدمی سے مختلف تھی۔ آئن سٹائن کا خود بھی یہ کہناتھا کہ وہ جو کچھ سوچتے ہیں ،اسے تصور کی آنکھ سے دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ آئن سٹا ئن کے دماغ کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ اگرچہ ان کا انتقال 76 سال کی عمر میں ہواتھا مگردماغ کی ساخت دیکھ کرایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی نوجوان شخص کا دماغ ہو۔
ڈاکٹر ٹامس ہاورے نے چونکہ اپنی تربیت کے دوران کچھ وقت فلاڈلفیا کی اسی لیبارٹری میں گذارا تھا۔ اس لیے انہوں نے دماغ پر تحقیق کے لیے  اس میڈیکل میوزیم کے ایک ماہر ولیم ایریچ   سے رابطہ کرکے  اس کی 46 سلائیڈز بنوائیں۔ ہر سلائیڈ  کی موٹائی انسانی بال سے بھی کم تھی۔ جنہیں انہوں نے  ایک خصوصی بکس میں محفوظ کرلیا۔

سلائیڈیں بننے کے بعد آئن سٹائن کے دماغ کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔  کچھ عرصہ یہ سلائیڈیں ولیم ایریچ کے پاس رہیں۔ 1967ء میں ایریچ کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ نے وہ بکس ایک  اور ڈاکٹر ایلن سٹائن برگ کے حوالے کردیا۔  جنہوں نے مزید تحقیق کے لیے اسے  فلاڈلفیا کے چلڈرن ہاسپٹل کے نیوروسرجن ڈاکٹر لکی رورک ایڈمز کو دے دیا۔
ڈاکٹر ایڈمز نے اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعدحال ہی میں آئن سٹائن کے دماغ کی سلائیڈوں کا مکمل سیٹ مووٹر میوزیم کو عطیہ میں دیا ہے۔لائیو سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ایڈمز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ آئن سٹائن کے دماغ کو میڈیکل سائنس کی تاریخ کے ایک اہم حصے کے طور پر مووٹر میوزیم  میں رکھ دیا جائے۔
میڈیکل ہسٹری میوزیم کی عہدے دار ڈورڈی کا کہناہے کہ کچھ عرصے تک  آئن سٹائن کے دماغ کی  نمائش اسی عجائب گھر میں جاری رہے گی، بعد میں  دوسرے عجائب گھروں میں  اسے نمائش کے لیے بھیجا جائے گا۔


Saturday, December 24, 2011

SOURCE:VOA URDU

بھوتوں کی سائنسی حقیقت

دنیا بھر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھوتوں کی موجودگی پر یقین رکھتی ہے ، لیکن بھوتوں کی ماہیت اور کردار پر ان کے نظریات مختلف ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں ان کا پتا چلانے کے لیے جدید سائنسی آلات استعمال کیے جاتے ہیں ۔ جب کہ سائنس دان بھوتوں کی ایک مختلف توجیح پیش کرتے ہیں۔
کیا آپ بھوت پکڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
دنیا کے تقریباً ہرحصے میں ایسے عامل اور ماہر موجود ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بھوتوں کو پکڑ سکتے ہیں اور انہیں بھاگنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ان دعوؤں کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جاتا ہے اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جویہ خواہش کرتے ہیں کہ الہ دین کے چراغ کے جن کی طرح ان کے قبضے میں بھی کوئی جن بھوت آجائے اور ان کی زندگی آسان ہوجائے۔
سوال یہ ہے کہ بھوت کیا کچھ کرسکتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آیا اس دنیا میں ان کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے بھوتوں پر پر یقین رکھنے والوں کی تعداد نمایاں طورپر زیاد ہے۔ پس ماندہ معاشروں کی تو بات ہی چھوڑئیے،  ترقی یافتہ ممالک میں بھوتوں کی موجودگی پر یقین کرنے والے اکثریت میں ہیں۔  امریکہ میں تو ہرسال اکتوبر کے آخر میں ہالووین کے نام سے  بھوتوں اور روحوں کو خوش کرنے کا دن بھی منایا جاتا ہے۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ میں پرانے اور پیچیدہ مقدمات سے متعلق  ٹیلی ویژن چینل پر  دکھائی جانے والی متعدد رپورٹوں میں پولیس بعض دفعہ اندھے جرائم کے مجرموں تک پہنچنے کے لیے عالموں کے ذریعے بھوتوں کی مدد بھی حاصل کرتی ہے۔
مشرق اور مغرب میں بھوتوں پر الگ الگ نظریات اور تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ عقائد میں انہیں ایک علیحدہ مخلوق کے طورپر دیکھا جاتا ہے، مثلاً جن وغیرہ،  جب کہ مغرب میں اکثر کا یہ خیال ہے کہ  بھوت انسانوں اور حیوانوں کی بھٹکی ہوئی روحیں ہیں۔ ہم اس مضمون میں روحوں کے نظریے پر ہی بات کریں گے۔
بھوتوں کا نظریہ یہ اتنا ہی پرانا جتنا کہ انسانی تاریخ۔ کئی قبل از تاریخ کھنڈرات اور قدیم غاروں کی دیواروں پر بنی تصویریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اپنے شعور کے ابتدائی دور میں بھی انسان بھوتوں پر یقین رکھتا تھا۔
دنیا بھر میں ایسے افراد بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو انہیں دیکھنے، یا ان سے ہم کلام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بھوتوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

بھوتوں پر ہالی وڈ کی کئی کامیاب فلمیں ریلز ہوچکی ہیں اور امریکہ اور یورپ میں ان پر کئی مشہور ٹی ویژن سیریل دکھائے جاچکے ہیں۔ لیکن بھوتوں سے متعلق علوم کے ماہرین کا کہناہے کہ ٹیلی ویژن اور فلموں میں بھوتوں کو ڈراونے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ بھوتوں کی اکثریت صلح پسند ہوتی ہے۔اور وہ نقصان پہنچانے سے گریز کرتے ہیں۔
مغربی دنیا میں بھوتوں کے اکثر عامل پیرا سائیکالوجی کے ماہر کہلاتے ہیں۔ ایک عامل جان کاکوبا نے اپنی کتاب ’گوسٹ ہنٹرز‘ میں لکھا ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت بھوتوں کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے۔ جس کے مطابق توانائی کو فنا نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ روح توانائی کی ایک قسم ہے، جو برقی مقناطیسی قوت کی صورت میں جسم میں رہتی ہے۔ جسم مرجاتا ہے لیکن روح نہیں مرتی، کیونکہ وہ ایک توانائی ہے۔ جب کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح جسم مٹی کے ساتھ مل کرمٹی ہوجاتاہے، اسی طرح جسم میں موجود توانائی حرارت میں تبدیل ہوکر فضا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔
پیرا سائیکالوجی کےاکثر ماہرین جان کاکوبا کے ہی نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔
انسان کاجسمانی نظام بجلی پر کام کرتا ہے جو جسم کے اندر ہی پیدا ہوتی ہے۔ مخصوص کیمروں کے ذریعے جسم سے خارج ہونے والی خفیف برقی لہروں کی تصویر اتاری جاسکتی ہے۔ عاملوں کا کہناہے جسم کی موت کے بعد یہ برقی توانائی یا روح دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے، لیکن جو افراد مرتے وقت انتقام یا محبت کے شدید ترین جذبات کی کیفیت سے گذر رہے ہوتے ہیں، ان کی روحیں اپنے مقصد کی تکمیل تک دنیا میں ہی رک جاتی ہیں، جو بھوت بن جاتی ہیں۔

صرف انسانی روحیں ہی بھوت کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ کئی گھریلو پالتو جانور، مثلاً ایسے کتوں اور بلیوں کی روحیں بھی ان کے مرنے کے بعد بھوت بن جاتی ہیں جنہیں اپنے مالکوں سے شدید محبت ہوتی ہے یا وہ کوئی خاص انتقام لینا چاہتی ہیں۔  یہ روحیں اکثر اپنے مالکوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔
اکثر عاملوں کا کہنا ہے کہ بھوت از خود کچھ نہیں کرسکتے۔ انہیں اپنا مشن مکمل کرنے کے لیے انسانی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ مدد کے لیے ہمارے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ جب ان کا کام پورا ہوجاتا ہے تو باقی روحوں کی طرح  وہ بھی دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں۔
پیرا سائیکالوجی  کے ماہرین  کا کہنا ہے کہ بعض انسانوں کا جسمانی برقی مقناطیسی نظام بہت توانا ہوتا ہے یا وہ مشق کے ذریعے وہ اپنی یہ قوت اتنی زیادہ بڑھا لیتے ہیں کہ دوسروں کی سوچ اور خیالات پر اثرانداز ہونے کے قابل ہوجاتے ہیں، جس کی ایک نمایاں مثال ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کے ماہرین ہیں۔  لیکن جب کسی غلطی کی وجہ  سے وہ اپنی مقناطیسی لہروں کو کنٹرول نہیں کرپاتے تو وہ توانائی بھی بھوت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔

پیرا سائیکالوجی کے ان ماہرین کو اپنے نظریے پر اتنا پختہ یقین ہے کہ وہ بھوت پکڑنے کے لیے سائنسی آلات استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً قطب نما، برقی مقناطیسی لہروں کا کھوج لگانے والے میٹر،  حرارت اور توانائی کی لہروں کی تصویر اتارنے والے کیمرے، اور مخصوص قسم کے سکینر وغیرہ،  لیکن وہ اپنا یہ ٹریڈ سیکریٹ نہیں بتاتے کہ وہ کس طرح بھوتوں سے ہم کلام ہوتے ہیں۔
بھوتوں کی تصویریں اور ویڈیوز بڑی تعداد میں یوٹیوب اور انٹرنیٹ کی کئی سائٹس پر موجود ہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کے مخصوص مقناطیسی میدان، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بعض مقامات پر ایسے چھوٹے چھوٹے برقی دائرے بن جاتے ہیں، جو الیکٹرانک آلات پر بھوت کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔
بھوتوں سے منسوب زیادہ تر واقعات قدیم اور متروک عمارتوں، کھنڈرات، اجاڑ اور ویران جگہوں، نیم تاریک اور ٹھنڈے مقامات پر رونما ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اور اسی طرح کے اور بھی کئی ایسے سوالات ہیں جن کا ابھی تک پیرا سائیکالوجی کے ماہرین اور سائنس دانوں کے پاس کوئی ٹھوس جواب موجود نہیں ہے۔



SORCE:BBC URDU

زمین کا ’جڑواں‘ سیارہ دریافت

کیپلر 22 زمین سے چھ سو نوری سال کے فاصلے پر ہے
ناسا کے ماہرین فلکیات نے ایک سیارے کی تصدیق کی ہے جو ایسے مدار میں گردش کرتا ہے جو ’ قابل رہائش‘ تصور کیا جاتا ہے۔
ماہرین فلکیات اس سیارے کو زمین کا ’جڑواں‘ قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے زمین سے اتنا مشابہہ سیارہ دریافت نہیں ہوا ہے۔
ناسا کےماہرین فلکیات کے مطابق کیپلر 22 بی نامی سیارہ زمین سے چھ سو نوری سال کے فاصلے پر ہے اور اور اس کا حجم زمین سے دو اعشاریہ چار فیصد بڑا ہے۔
لیکن ماہرین کو ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ سیارہ چٹانوں،گیس اور پانی پر مشتمل ہے یا نہیں ۔
ناسا کی کانفرنس میں جہاں اس سیارے کی دریافت کے بارے میں اعلان کیا گیا وہیں ایک ہزار چورانوے نئے ’امیدوار‘ سیاروں کا پتہ لگانے کا دعویٰ کیا گیا۔
’کیپلر 22 اپنے سورج سے زمین کی نسبت پندرہ فیصد کم فاصلے پر ہے اور اس کا سال 290 دنوں کا ہے۔ لیکن کیپلر 22 کا سورج اسے زمین کے سورج کی نسبت 25 فیصد کم حرارت مہیا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کیپلر 22 کا درجہ حرارت بائیس سیلسیس ہے جو خوشگوار موسم اور معائع پانی کی موجودگی کا اشارہ دیتا ہے۔
ناسا کے ایمس ریسرچ سنٹر کے ولیم بوراکی نے کہا کہ قسمت ہم پر مہربان ہوئی ہے اور ہم نے یہ سیارہ دریافت کرلیا ہے

SOURCE:BBC URDU

چالیس فیصد افراد کینسر سے بچ سکتے تھے

فائل فوٹو
برطانیہ میں ایک لاکھ کینسر کیسز کی وجہ سگرٹ نوشی، خوراک، شراب نوشی اور موٹاپا ہے۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق برطانیہ میں کینسر میں مبتلا تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار افراد ایسے ہیں جو اس جان لیوا مرض سے بچ سکتے تھے۔
کینسر رسرچ نامی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین میں پندرہ اعشاریہ چھ فیصد اور مردوں میں تئیس فیصد مریض تمباکو نوشی کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہوئے۔
برٹش جرنل آف کینسر میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مصنفوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اس بارے میں اتنی تفصیلی رپورٹ کبھی منظرِعام پر نہیں آئی ہے۔
اس رپورٹ کے اہم مصنف پروفیسر میکس پارکن نے بتایا کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کینسر کا ہونا یا نہ ہونا قسمت کا کھیل ہے یا پھر یہ بیماری کسی جینیاتی نقص کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لیکن ان شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً چالیس فیصد کینسر کے کیس ایسے ہیں جن سے بچنا ہمارے اختیار میں ہے۔
پروفیسر پارکن کا کہنا تھا کہ اس رسرچ سے قبل یہ ان کے علم میں نہیں تھا کہ مرد حضرات زیادہ سبزیاں اور پھل کھانے سے کینسر سے بچ سکتے ہیں اور اسی طرح خواتین موٹاپے سے پرہیز کرنے سے اس جان لیوا بیماری سے بچ سکتی ہیں۔
کل ملا کر چودہ رہن سہن اور ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر برطانیہ میں ہر سال ایک لاکھ چونتیس ہزار کینر کیس منظرِ عام پر آتے ہیں۔
جبکہ ایک لاکھ کینسر کیسز کی وجہ سگرٹ نوشی، خوراک، شراب نوشی اور موٹاپا ہے۔

SORCE:BBC URDU

 حافظ سعید، آئی ایس آئی پر فرد جرم کی اجازت


ممبئی پر حملے میں تقریبا ایک سو ستّر افراد ہلاک ہوئےتھے
بھارتی حکومت نے دو ہزار آٹھ میں ممبئی پر ہوئے حملے کےمعاملے میں امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلی، پاکستانی شہری حافظ سعید اور آئی ایس آئی کے دو افسران سمیت نو افراد پر فرد جرم عائد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
ممبئی حملے کے کیس سے متعلق وزارت قانون سے رائے مانگی گئي تھی اور اسی کے مشورہ کے بعد وزارت داخلہ نے ان افراد کے خلاف فردِ جرم عائد کرنے کو کہا ہے۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق جن افراد کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے احکامات دیےگئے ہیں اس میں ذکی الرحمن لکھوی، طہور رانا، الیاس کشمیری کے نام کے ساتھ ہیڈلی کے ایک ساتھی ساجد ملک اور ان کے علاوہ عبدالرحمن کا نام بھی شامل ہے۔
پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے جن دو افسروں پر فرد جرم عائد کرنے کو کہا گيا ہے ان کے نام میجر اقبال اور سمیر علی بتائے جا رہے ہیں۔
قومی تفتیشی ٹیم این آئی اے نے ان افراد کے خلاف ایک مقدمہ پہلے ہی درج کیا تھا اور اب ان افراد پر بھارتی دفعات کے تحت ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے جیسے الزامات عائد کیے جائیں گے۔
اس وقت امریکی شہری ڈیوڈ ہیڈلی اور طہور رانا امریکی سکیورٹی حکام کی حراست میں ہیں۔ بھارتی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کو صرف ہیڈلی سے پوچھ گچھ کے لیے محدود اجازت ملی تھی۔
طہور رانا پر امریکی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا اور وہ ڈنمارک میں دہشت گردی کے ایک واقعے میں تو قصور وار پائے گئے لیکن ممبئی حملے میں وہ بری کر دیے گئے تھے۔
سنہ دو ہزار آٹھ میں ممبئی میں شدت پسندوں نے کئی مقامات پر حملے کیے تھے جس میں ایک سو چھیاسٹھ افراد ہلاک اور ڈھائی سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔
ان حملوں کے بعد واحد زندہ بچنے والے حملہ آور اجمل قصاب ممبئی کی جیل میں قید ہیں۔ انہیں عدالت نے متعدد افراد کو ہلاک کرنے کا مجرم قرار دیا ہے اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی سازش پاکستان میں بنائی گئی اور وہیں سے حملہ آور ممبئی پہنچے تھے۔ بھارتی حکومت کا الزام ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا اور یہ کہ پاکستان نے حملے کی سازش تیار کرنے والوں کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہیں کی ہے۔
پا کستان میں ممبئی حملوں کی مبینہ سازش تیار کرنے کے مقدمے میں گرفتار سات افراد پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے لیکن ان حملوں کی تحقیقات کرنے والے بھارتی حکام کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے ایک عدالتی کمیشن جلد بھارت آنے والا ہے۔
ممبئی حملوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اور نتجیتاً امن مذاکرات بھی معطل ہوگئے تھے۔