آئن سٹائن کے دماغ کی نمائش
نظریہ اضافیت کے بانی ڈاکٹر آئن سٹائن ایک صدی سے زیادہ عرصے سے جدید سائنس کے افق پر جگما رہے ہیں۔ انہیں بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس دان سمجھا جاتا ہے۔ ان کا انتقال 1955ء میں ہوا تھا، جس کے بعد پہلی بار ان کادماغ نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ماہرین کا کہناہے کہ آئن سٹائن کا دماغ عام انسانی دماغ سے قدرے مختلف ہے۔
البرٹ آئن سٹائن زندگی بھر کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے اور توانائی اور مادے کے تعلق کی گتھیاں سلجھانے کا سوچتے رہے، مگر اس دوران شاید انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ایک روز ان کا دماغ نمائش کے لیے رکھا جائے گا اور لوگ حیرت سے اسے دیکھ کر سوچیں گے کہ یہی ہے وہ دماغ جس نے ایٹم توڑ کر توانائی حاصل کرنے کانظریہ پیش کیا تھا اور جس نے کہا تھا کہ کائنات کی کوئی چیز روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتی۔
جدید طبیعاتی سائنس کی بنیاد آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت پر قائم ہے، مگر چند ماہ قبل یورپ میں قائم جوہری طبیعات کی دنیا کی سب سے بڑی زیر زمین تجربہ گاہ میں یہ نظریہ باطل ہوچکاہے اور روشنی سے بھی تیزرفتار ذرات نیوٹرینو دریافت کرلیے گئے ہیں۔
ان دنوں امریکی شہر فلاڈلفیا کے مووٹرمیوزیم اینڈ ہسٹاریکل میڈیکل لیبارٹری میں آئن سٹائن کے دماغ کی نمائش جاری ہے۔ اس نمائش میں ان کے دماغ کو46 ٹکڑوں کی شکل میں سلائیڈوں پر پیش کیا گیا ہے۔ 20 ویں صدی کے اس عظیم ترین سائنس دان کے دماغ کی یہ پہلی نمائش ہے۔
عجائب گھر کی کیوریٹر اینا ڈوڈی کا کہناہے کہ میوزیم میں آنے والے دماغ کی 45 سلائیڈوں کو اپنی اصلی حالت میں دیکھ سکتے ہیں جب کہ ایک سلائیڈ کو خردبینی عدسے کے ذریعے بڑا کرکے دکھانے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔
آئن سٹائن کا انتقال 1955ء میں 76 سال کی عمر میں ہواتھا۔ موت کے اسباب کا پتا لگانے کے لیے ڈاکٹر ٹامس ہاروے نے ان کا پوسٹ مارٹم کیاتھا۔اس دوران ڈاکٹر نے ان کا دماغ بھی معائنہ کے لیے باہر نکالا مگر وہ اسے دوبارہ کھوپڑی کے اندر رکھنے میں ناکام رہے اور انہوں نے دماغ کو اپنے ہی پاس رکھ لیا۔ ڈاکٹر ہاروے نے دعویٰ کیا تھا کہ آئن سٹائن کے بیٹے نے انہیں دماغ لے جانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس پر کھڑے ہونے والے تنازع میں ڈاکٹر ہاروے کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے، مگر عظیم سائنس دان کا دماغ انہی کی تحویل میں رہا۔
ڈاکٹر ہاروے کو اپنی ابتدائی تحقیق سے پتا چلا کہ دماغ کے دونوں حصوں کو ڈھاپنے والی مخصوص تہہ موجود نہیں تھی اور دماغ کے خلیوں کا حفاظتی حصہ بھی نمایاں طورپر بڑا تھا۔ گویا آئن سٹائن کا دماغ عام افراد سے کچھ مختلف تھا۔
اس واقعہ کے کئی سال کے بعد ڈاکٹر ٹامس ہاروے نے آئن سٹائن کے دماغ کے کچھ حصے مزید تحقیق کے لیے نیورو سائنس دانوں کو بجھوائےتا کہ وہ یہ جائزہ لیں کہ دماغ کے کس حصے نے انہیں 20 ویں صدی کا ذہین ترین سائنس دان بنانے میں مدد دی تھی۔
تفصیلی معائنے اور متعدد تجربات سے گذرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ آئن سٹائن کے دماغ کے وہ حصے جن کا تعلق بول چال اور زبان سے ہوتا ہے، نسبتاً چھوٹے تھے ، جب کہ ریاضی اور سوچ بچار سے متعلق حصے ایک نارمل دماغ کی نسبت15 فی صد بڑے تھے ۔ اس کے علاوہ نیوران، یعنی تمام دماغی امور انجام دینے والے خلیوں کے گرد مخصوص حفاظتی تہہ ’ گلیال ‘ بھی عام افراد کی نسبت بڑی تھی۔
1999ء میں کینیڈا کے شہر ہملٹن میں واقع مک ماسٹر یونیوسٹی میں دماغی امور کے ماہرین کی ایک اور ٹیم کوتفصیلی معائنے سے پتا چلا کہ آئن سٹائن کے دماغ کے سامنے کے حصے میں ایک خلا موجود تھا۔ ماہرین نے اندازہ لگایا کہ اس خلاکے باعث اس حصے میں واقع نیوران کی کاررکردگی نمایاں طور پر بہتر بنانے میں مدد ملی ۔اور اسی لیے ان کی سوچ ایک عام آدمی سے مختلف تھی۔ آئن سٹائن کا خود بھی یہ کہناتھا کہ وہ جو کچھ سوچتے ہیں ،اسے تصور کی آنکھ سے دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ آئن سٹا ئن کے دماغ کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ اگرچہ ان کا انتقال 76 سال کی عمر میں ہواتھا مگردماغ کی ساخت دیکھ کرایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی نوجوان شخص کا دماغ ہو۔
ڈاکٹر ٹامس ہاورے نے چونکہ اپنی تربیت کے دوران کچھ وقت فلاڈلفیا کی اسی لیبارٹری میں گذارا تھا۔ اس لیے انہوں نے دماغ پر تحقیق کے لیے اس میڈیکل میوزیم کے ایک ماہر ولیم ایریچ سے رابطہ کرکے اس کی 46 سلائیڈز بنوائیں۔ ہر سلائیڈ کی موٹائی انسانی بال سے بھی کم تھی۔ جنہیں انہوں نے ایک خصوصی بکس میں محفوظ کرلیا۔
سلائیڈیں بننے کے بعد آئن سٹائن کے دماغ کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ کچھ عرصہ یہ سلائیڈیں ولیم ایریچ کے پاس رہیں۔ 1967ء میں ایریچ کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ نے وہ بکس ایک اور ڈاکٹر ایلن سٹائن برگ کے حوالے کردیا۔ جنہوں نے مزید تحقیق کے لیے اسے فلاڈلفیا کے چلڈرن ہاسپٹل کے نیوروسرجن ڈاکٹر لکی رورک ایڈمز کو دے دیا۔
ڈاکٹر ایڈمز نے اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعدحال ہی میں آئن سٹائن کے دماغ کی سلائیڈوں کا مکمل سیٹ مووٹر میوزیم کو عطیہ میں دیا ہے۔لائیو سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ایڈمز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ آئن سٹائن کے دماغ کو میڈیکل سائنس کی تاریخ کے ایک اہم حصے کے طور پر مووٹر میوزیم میں رکھ دیا جائے۔
میڈیکل ہسٹری میوزیم کی عہدے دار ڈورڈی کا کہناہے کہ کچھ عرصے تک آئن سٹائن کے دماغ کی نمائش اسی عجائب گھر میں جاری رہے گی، بعد میں دوسرے عجائب گھروں میں اسے نمائش کے لیے بھیجا جائے گا۔
جدید طبیعاتی سائنس کی بنیاد آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت پر قائم ہے، مگر چند ماہ قبل یورپ میں قائم جوہری طبیعات کی دنیا کی سب سے بڑی زیر زمین تجربہ گاہ میں یہ نظریہ باطل ہوچکاہے اور روشنی سے بھی تیزرفتار ذرات نیوٹرینو دریافت کرلیے گئے ہیں۔
ان دنوں امریکی شہر فلاڈلفیا کے مووٹرمیوزیم اینڈ ہسٹاریکل میڈیکل لیبارٹری میں آئن سٹائن کے دماغ کی نمائش جاری ہے۔ اس نمائش میں ان کے دماغ کو46 ٹکڑوں کی شکل میں سلائیڈوں پر پیش کیا گیا ہے۔ 20 ویں صدی کے اس عظیم ترین سائنس دان کے دماغ کی یہ پہلی نمائش ہے۔
عجائب گھر کی کیوریٹر اینا ڈوڈی کا کہناہے کہ میوزیم میں آنے والے دماغ کی 45 سلائیڈوں کو اپنی اصلی حالت میں دیکھ سکتے ہیں جب کہ ایک سلائیڈ کو خردبینی عدسے کے ذریعے بڑا کرکے دکھانے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔
آئن سٹائن کا انتقال 1955ء میں 76 سال کی عمر میں ہواتھا۔ موت کے اسباب کا پتا لگانے کے لیے ڈاکٹر ٹامس ہاروے نے ان کا پوسٹ مارٹم کیاتھا۔اس دوران ڈاکٹر نے ان کا دماغ بھی معائنہ کے لیے باہر نکالا مگر وہ اسے دوبارہ کھوپڑی کے اندر رکھنے میں ناکام رہے اور انہوں نے دماغ کو اپنے ہی پاس رکھ لیا۔ ڈاکٹر ہاروے نے دعویٰ کیا تھا کہ آئن سٹائن کے بیٹے نے انہیں دماغ لے جانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس پر کھڑے ہونے والے تنازع میں ڈاکٹر ہاروے کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے، مگر عظیم سائنس دان کا دماغ انہی کی تحویل میں رہا۔
ڈاکٹر ہاروے کو اپنی ابتدائی تحقیق سے پتا چلا کہ دماغ کے دونوں حصوں کو ڈھاپنے والی مخصوص تہہ موجود نہیں تھی اور دماغ کے خلیوں کا حفاظتی حصہ بھی نمایاں طورپر بڑا تھا۔ گویا آئن سٹائن کا دماغ عام افراد سے کچھ مختلف تھا۔
اس واقعہ کے کئی سال کے بعد ڈاکٹر ٹامس ہاروے نے آئن سٹائن کے دماغ کے کچھ حصے مزید تحقیق کے لیے نیورو سائنس دانوں کو بجھوائےتا کہ وہ یہ جائزہ لیں کہ دماغ کے کس حصے نے انہیں 20 ویں صدی کا ذہین ترین سائنس دان بنانے میں مدد دی تھی۔
تفصیلی معائنے اور متعدد تجربات سے گذرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ آئن سٹائن کے دماغ کے وہ حصے جن کا تعلق بول چال اور زبان سے ہوتا ہے، نسبتاً چھوٹے تھے ، جب کہ ریاضی اور سوچ بچار سے متعلق حصے ایک نارمل دماغ کی نسبت15 فی صد بڑے تھے ۔ اس کے علاوہ نیوران، یعنی تمام دماغی امور انجام دینے والے خلیوں کے گرد مخصوص حفاظتی تہہ ’ گلیال ‘ بھی عام افراد کی نسبت بڑی تھی۔
1999ء میں کینیڈا کے شہر ہملٹن میں واقع مک ماسٹر یونیوسٹی میں دماغی امور کے ماہرین کی ایک اور ٹیم کوتفصیلی معائنے سے پتا چلا کہ آئن سٹائن کے دماغ کے سامنے کے حصے میں ایک خلا موجود تھا۔ ماہرین نے اندازہ لگایا کہ اس خلاکے باعث اس حصے میں واقع نیوران کی کاررکردگی نمایاں طور پر بہتر بنانے میں مدد ملی ۔اور اسی لیے ان کی سوچ ایک عام آدمی سے مختلف تھی۔ آئن سٹائن کا خود بھی یہ کہناتھا کہ وہ جو کچھ سوچتے ہیں ،اسے تصور کی آنکھ سے دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ آئن سٹا ئن کے دماغ کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ اگرچہ ان کا انتقال 76 سال کی عمر میں ہواتھا مگردماغ کی ساخت دیکھ کرایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی نوجوان شخص کا دماغ ہو۔
ڈاکٹر ٹامس ہاورے نے چونکہ اپنی تربیت کے دوران کچھ وقت فلاڈلفیا کی اسی لیبارٹری میں گذارا تھا۔ اس لیے انہوں نے دماغ پر تحقیق کے لیے اس میڈیکل میوزیم کے ایک ماہر ولیم ایریچ سے رابطہ کرکے اس کی 46 سلائیڈز بنوائیں۔ ہر سلائیڈ کی موٹائی انسانی بال سے بھی کم تھی۔ جنہیں انہوں نے ایک خصوصی بکس میں محفوظ کرلیا۔
سلائیڈیں بننے کے بعد آئن سٹائن کے دماغ کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ کچھ عرصہ یہ سلائیڈیں ولیم ایریچ کے پاس رہیں۔ 1967ء میں ایریچ کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ نے وہ بکس ایک اور ڈاکٹر ایلن سٹائن برگ کے حوالے کردیا۔ جنہوں نے مزید تحقیق کے لیے اسے فلاڈلفیا کے چلڈرن ہاسپٹل کے نیوروسرجن ڈاکٹر لکی رورک ایڈمز کو دے دیا۔
ڈاکٹر ایڈمز نے اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعدحال ہی میں آئن سٹائن کے دماغ کی سلائیڈوں کا مکمل سیٹ مووٹر میوزیم کو عطیہ میں دیا ہے۔لائیو سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ایڈمز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ آئن سٹائن کے دماغ کو میڈیکل سائنس کی تاریخ کے ایک اہم حصے کے طور پر مووٹر میوزیم میں رکھ دیا جائے۔
میڈیکل ہسٹری میوزیم کی عہدے دار ڈورڈی کا کہناہے کہ کچھ عرصے تک آئن سٹائن کے دماغ کی نمائش اسی عجائب گھر میں جاری رہے گی، بعد میں دوسرے عجائب گھروں میں اسے نمائش کے لیے بھیجا جائے گا۔
No comments:
Post a Comment