بھوتوں کی سائنسی حقیقت
دنیا بھر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھوتوں کی موجودگی پر یقین رکھتی ہے ، لیکن بھوتوں کی ماہیت اور کردار پر ان کے نظریات مختلف ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں ان کا پتا چلانے کے لیے جدید سائنسی آلات استعمال کیے جاتے ہیں ۔ جب کہ سائنس دان بھوتوں کی ایک مختلف توجیح پیش کرتے ہیں۔
کیا آپ بھوت پکڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
دنیا کے تقریباً ہرحصے میں ایسے عامل اور ماہر موجود ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بھوتوں کو پکڑ سکتے ہیں اور انہیں بھاگنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ان دعوؤں کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جاتا ہے اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جویہ خواہش کرتے ہیں کہ الہ دین کے چراغ کے جن کی طرح ان کے قبضے میں بھی کوئی جن بھوت آجائے اور ان کی زندگی آسان ہوجائے۔
سوال یہ ہے کہ بھوت کیا کچھ کرسکتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آیا اس دنیا میں ان کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے بھوتوں پر پر یقین رکھنے والوں کی تعداد نمایاں طورپر زیاد ہے۔ پس ماندہ معاشروں کی تو بات ہی چھوڑئیے، ترقی یافتہ ممالک میں بھوتوں کی موجودگی پر یقین کرنے والے اکثریت میں ہیں۔ امریکہ میں تو ہرسال اکتوبر کے آخر میں ہالووین کے نام سے بھوتوں اور روحوں کو خوش کرنے کا دن بھی منایا جاتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ میں پرانے اور پیچیدہ مقدمات سے متعلق ٹیلی ویژن چینل پر دکھائی جانے والی متعدد رپورٹوں میں پولیس بعض دفعہ اندھے جرائم کے مجرموں تک پہنچنے کے لیے عالموں کے ذریعے بھوتوں کی مدد بھی حاصل کرتی ہے۔
مشرق اور مغرب میں بھوتوں پر الگ الگ نظریات اور تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ عقائد میں انہیں ایک علیحدہ مخلوق کے طورپر دیکھا جاتا ہے، مثلاً جن وغیرہ، جب کہ مغرب میں اکثر کا یہ خیال ہے کہ بھوت انسانوں اور حیوانوں کی بھٹکی ہوئی روحیں ہیں۔ ہم اس مضمون میں روحوں کے نظریے پر ہی بات کریں گے۔
بھوتوں کا نظریہ یہ اتنا ہی پرانا جتنا کہ انسانی تاریخ۔ کئی قبل از تاریخ کھنڈرات اور قدیم غاروں کی دیواروں پر بنی تصویریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اپنے شعور کے ابتدائی دور میں بھی انسان بھوتوں پر یقین رکھتا تھا۔
دنیا بھر میں ایسے افراد بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو انہیں دیکھنے، یا ان سے ہم کلام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بھوتوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
بھوتوں پر ہالی وڈ کی کئی کامیاب فلمیں ریلز ہوچکی ہیں اور امریکہ اور یورپ میں ان پر کئی مشہور ٹی ویژن سیریل دکھائے جاچکے ہیں۔ لیکن بھوتوں سے متعلق علوم کے ماہرین کا کہناہے کہ ٹیلی ویژن اور فلموں میں بھوتوں کو ڈراونے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ بھوتوں کی اکثریت صلح پسند ہوتی ہے۔اور وہ نقصان پہنچانے سے گریز کرتے ہیں۔
مغربی دنیا میں بھوتوں کے اکثر عامل پیرا سائیکالوجی کے ماہر کہلاتے ہیں۔ ایک عامل جان کاکوبا نے اپنی کتاب ’گوسٹ ہنٹرز‘ میں لکھا ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت بھوتوں کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے۔ جس کے مطابق توانائی کو فنا نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ روح توانائی کی ایک قسم ہے، جو برقی مقناطیسی قوت کی صورت میں جسم میں رہتی ہے۔ جسم مرجاتا ہے لیکن روح نہیں مرتی، کیونکہ وہ ایک توانائی ہے۔ جب کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح جسم مٹی کے ساتھ مل کرمٹی ہوجاتاہے، اسی طرح جسم میں موجود توانائی حرارت میں تبدیل ہوکر فضا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔
پیرا سائیکالوجی کےاکثر ماہرین جان کاکوبا کے ہی نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔
انسان کاجسمانی نظام بجلی پر کام کرتا ہے جو جسم کے اندر ہی پیدا ہوتی ہے۔ مخصوص کیمروں کے ذریعے جسم سے خارج ہونے والی خفیف برقی لہروں کی تصویر اتاری جاسکتی ہے۔ عاملوں کا کہناہے جسم کی موت کے بعد یہ برقی توانائی یا روح دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے، لیکن جو افراد مرتے وقت انتقام یا محبت کے شدید ترین جذبات کی کیفیت سے گذر رہے ہوتے ہیں، ان کی روحیں اپنے مقصد کی تکمیل تک دنیا میں ہی رک جاتی ہیں، جو بھوت بن جاتی ہیں۔
صرف انسانی روحیں ہی بھوت کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ کئی گھریلو پالتو جانور، مثلاً ایسے کتوں اور بلیوں کی روحیں بھی ان کے مرنے کے بعد بھوت بن جاتی ہیں جنہیں اپنے مالکوں سے شدید محبت ہوتی ہے یا وہ کوئی خاص انتقام لینا چاہتی ہیں۔ یہ روحیں اکثر اپنے مالکوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔
اکثر عاملوں کا کہنا ہے کہ بھوت از خود کچھ نہیں کرسکتے۔ انہیں اپنا مشن مکمل کرنے کے لیے انسانی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ مدد کے لیے ہمارے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ جب ان کا کام پورا ہوجاتا ہے تو باقی روحوں کی طرح وہ بھی دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں۔
پیرا سائیکالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض انسانوں کا جسمانی برقی مقناطیسی نظام بہت توانا ہوتا ہے یا وہ مشق کے ذریعے وہ اپنی یہ قوت اتنی زیادہ بڑھا لیتے ہیں کہ دوسروں کی سوچ اور خیالات پر اثرانداز ہونے کے قابل ہوجاتے ہیں، جس کی ایک نمایاں مثال ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کے ماہرین ہیں۔ لیکن جب کسی غلطی کی وجہ سے وہ اپنی مقناطیسی لہروں کو کنٹرول نہیں کرپاتے تو وہ توانائی بھی بھوت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔
پیرا سائیکالوجی کے ان ماہرین کو اپنے نظریے پر اتنا پختہ یقین ہے کہ وہ بھوت پکڑنے کے لیے سائنسی آلات استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً قطب نما، برقی مقناطیسی لہروں کا کھوج لگانے والے میٹر، حرارت اور توانائی کی لہروں کی تصویر اتارنے والے کیمرے، اور مخصوص قسم کے سکینر وغیرہ، لیکن وہ اپنا یہ ٹریڈ سیکریٹ نہیں بتاتے کہ وہ کس طرح بھوتوں سے ہم کلام ہوتے ہیں۔
بھوتوں کی تصویریں اور ویڈیوز بڑی تعداد میں یوٹیوب اور انٹرنیٹ کی کئی سائٹس پر موجود ہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کے مخصوص مقناطیسی میدان، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بعض مقامات پر ایسے چھوٹے چھوٹے برقی دائرے بن جاتے ہیں، جو الیکٹرانک آلات پر بھوت کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔
بھوتوں سے منسوب زیادہ تر واقعات قدیم اور متروک عمارتوں، کھنڈرات، اجاڑ اور ویران جگہوں، نیم تاریک اور ٹھنڈے مقامات پر رونما ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اور اسی طرح کے اور بھی کئی ایسے سوالات ہیں جن کا ابھی تک پیرا سائیکالوجی کے ماہرین اور سائنس دانوں کے پاس کوئی ٹھوس جواب موجود نہیں ہے۔
دنیا کے تقریباً ہرحصے میں ایسے عامل اور ماہر موجود ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بھوتوں کو پکڑ سکتے ہیں اور انہیں بھاگنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ان دعوؤں کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جاتا ہے اور لاکھوں افراد ایسے ہیں جویہ خواہش کرتے ہیں کہ الہ دین کے چراغ کے جن کی طرح ان کے قبضے میں بھی کوئی جن بھوت آجائے اور ان کی زندگی آسان ہوجائے۔
سوال یہ ہے کہ بھوت کیا کچھ کرسکتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آیا اس دنیا میں ان کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے بھوتوں پر پر یقین رکھنے والوں کی تعداد نمایاں طورپر زیاد ہے۔ پس ماندہ معاشروں کی تو بات ہی چھوڑئیے، ترقی یافتہ ممالک میں بھوتوں کی موجودگی پر یقین کرنے والے اکثریت میں ہیں۔ امریکہ میں تو ہرسال اکتوبر کے آخر میں ہالووین کے نام سے بھوتوں اور روحوں کو خوش کرنے کا دن بھی منایا جاتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ میں پرانے اور پیچیدہ مقدمات سے متعلق ٹیلی ویژن چینل پر دکھائی جانے والی متعدد رپورٹوں میں پولیس بعض دفعہ اندھے جرائم کے مجرموں تک پہنچنے کے لیے عالموں کے ذریعے بھوتوں کی مدد بھی حاصل کرتی ہے۔
مشرق اور مغرب میں بھوتوں پر الگ الگ نظریات اور تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ عقائد میں انہیں ایک علیحدہ مخلوق کے طورپر دیکھا جاتا ہے، مثلاً جن وغیرہ، جب کہ مغرب میں اکثر کا یہ خیال ہے کہ بھوت انسانوں اور حیوانوں کی بھٹکی ہوئی روحیں ہیں۔ ہم اس مضمون میں روحوں کے نظریے پر ہی بات کریں گے۔
بھوتوں کا نظریہ یہ اتنا ہی پرانا جتنا کہ انسانی تاریخ۔ کئی قبل از تاریخ کھنڈرات اور قدیم غاروں کی دیواروں پر بنی تصویریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اپنے شعور کے ابتدائی دور میں بھی انسان بھوتوں پر یقین رکھتا تھا۔
دنیا بھر میں ایسے افراد بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو انہیں دیکھنے، یا ان سے ہم کلام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بھوتوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
بھوتوں پر ہالی وڈ کی کئی کامیاب فلمیں ریلز ہوچکی ہیں اور امریکہ اور یورپ میں ان پر کئی مشہور ٹی ویژن سیریل دکھائے جاچکے ہیں۔ لیکن بھوتوں سے متعلق علوم کے ماہرین کا کہناہے کہ ٹیلی ویژن اور فلموں میں بھوتوں کو ڈراونے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ بھوتوں کی اکثریت صلح پسند ہوتی ہے۔اور وہ نقصان پہنچانے سے گریز کرتے ہیں۔
مغربی دنیا میں بھوتوں کے اکثر عامل پیرا سائیکالوجی کے ماہر کہلاتے ہیں۔ ایک عامل جان کاکوبا نے اپنی کتاب ’گوسٹ ہنٹرز‘ میں لکھا ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت بھوتوں کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے۔ جس کے مطابق توانائی کو فنا نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ روح توانائی کی ایک قسم ہے، جو برقی مقناطیسی قوت کی صورت میں جسم میں رہتی ہے۔ جسم مرجاتا ہے لیکن روح نہیں مرتی، کیونکہ وہ ایک توانائی ہے۔ جب کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح جسم مٹی کے ساتھ مل کرمٹی ہوجاتاہے، اسی طرح جسم میں موجود توانائی حرارت میں تبدیل ہوکر فضا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔
پیرا سائیکالوجی کےاکثر ماہرین جان کاکوبا کے ہی نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔
انسان کاجسمانی نظام بجلی پر کام کرتا ہے جو جسم کے اندر ہی پیدا ہوتی ہے۔ مخصوص کیمروں کے ذریعے جسم سے خارج ہونے والی خفیف برقی لہروں کی تصویر اتاری جاسکتی ہے۔ عاملوں کا کہناہے جسم کی موت کے بعد یہ برقی توانائی یا روح دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے، لیکن جو افراد مرتے وقت انتقام یا محبت کے شدید ترین جذبات کی کیفیت سے گذر رہے ہوتے ہیں، ان کی روحیں اپنے مقصد کی تکمیل تک دنیا میں ہی رک جاتی ہیں، جو بھوت بن جاتی ہیں۔
صرف انسانی روحیں ہی بھوت کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ کئی گھریلو پالتو جانور، مثلاً ایسے کتوں اور بلیوں کی روحیں بھی ان کے مرنے کے بعد بھوت بن جاتی ہیں جنہیں اپنے مالکوں سے شدید محبت ہوتی ہے یا وہ کوئی خاص انتقام لینا چاہتی ہیں۔ یہ روحیں اکثر اپنے مالکوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔
اکثر عاملوں کا کہنا ہے کہ بھوت از خود کچھ نہیں کرسکتے۔ انہیں اپنا مشن مکمل کرنے کے لیے انسانی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ مدد کے لیے ہمارے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ جب ان کا کام پورا ہوجاتا ہے تو باقی روحوں کی طرح وہ بھی دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں۔
پیرا سائیکالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض انسانوں کا جسمانی برقی مقناطیسی نظام بہت توانا ہوتا ہے یا وہ مشق کے ذریعے وہ اپنی یہ قوت اتنی زیادہ بڑھا لیتے ہیں کہ دوسروں کی سوچ اور خیالات پر اثرانداز ہونے کے قابل ہوجاتے ہیں، جس کی ایک نمایاں مثال ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کے ماہرین ہیں۔ لیکن جب کسی غلطی کی وجہ سے وہ اپنی مقناطیسی لہروں کو کنٹرول نہیں کرپاتے تو وہ توانائی بھی بھوت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔
پیرا سائیکالوجی کے ان ماہرین کو اپنے نظریے پر اتنا پختہ یقین ہے کہ وہ بھوت پکڑنے کے لیے سائنسی آلات استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً قطب نما، برقی مقناطیسی لہروں کا کھوج لگانے والے میٹر، حرارت اور توانائی کی لہروں کی تصویر اتارنے والے کیمرے، اور مخصوص قسم کے سکینر وغیرہ، لیکن وہ اپنا یہ ٹریڈ سیکریٹ نہیں بتاتے کہ وہ کس طرح بھوتوں سے ہم کلام ہوتے ہیں۔
بھوتوں کی تصویریں اور ویڈیوز بڑی تعداد میں یوٹیوب اور انٹرنیٹ کی کئی سائٹس پر موجود ہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کے مخصوص مقناطیسی میدان، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بعض مقامات پر ایسے چھوٹے چھوٹے برقی دائرے بن جاتے ہیں، جو الیکٹرانک آلات پر بھوت کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔
بھوتوں سے منسوب زیادہ تر واقعات قدیم اور متروک عمارتوں، کھنڈرات، اجاڑ اور ویران جگہوں، نیم تاریک اور ٹھنڈے مقامات پر رونما ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اور اسی طرح کے اور بھی کئی ایسے سوالات ہیں جن کا ابھی تک پیرا سائیکالوجی کے ماہرین اور سائنس دانوں کے پاس کوئی ٹھوس جواب موجود نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment