.پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ چنانچہ یہاں آسانی سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے
فوٹو AP
پاکستان اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ تر تیل پر انحصار کرتا ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتو ں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جس کے باعث ایک طرف جہاں بجلی مہنگی ہوتی جاری ہے ، دوسری جانب بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری کرنے کے لیے زرمبادلہ پر دباؤ بڑھ رہاہے
۔
موجودہ صورت حال میں پاکستان کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ چنانچہ یہاں آسانی سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں اس شعبے میں پیش رفت ہورہی ہے۔ عام افراد اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اس موضوع پر گفتگو کے لیے وائس آف امریکہ نے اپنے اسٹوڈیوز میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا ، جس میں ٹیلی فون کے ذریعے اسلام آباد سے پاکستان آلٹر نیٹ انرجی بورڈ کے چیئر مین عارف علاؤالدین صاحب ، کراچی سے یو این ڈی پی کے پاکستان میں جاری سمال گرانٹس پروگرام کے نیشنل کوآرڈی نیٹر مسعود لوہار، لاس اینجلس کیلی فورنیا سے سولر انرجی کے ماہر اور دنیا بھر میں ایل ای ڈی لائٹنگ سے متعلق صف اول کی ایک کمپنی لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او، جناب پرویز لودھی ، اور کراچی سے پاکستان میں سولر پینل بنانے والی ایک ممتاز کمپنی شان ٹکنالوجیز کے سولر ایکسپرٹ شاہد صدیقی شریک ہوئے۔
لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او پرویز لودھی نے کہا کہ شمسی توانائی کا استعمال گزشتہ کچھ برسوں میں پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے لیکن اس کے بارے میں عام لوگوں کو زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس سسٹم سے لوگوں کی توقعات بڑھ جاتی ہیں اور وہ کئی غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں ۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سولر پینلز سورج سے بہت سی روشنی کو لے کرقلیل مقدار میں بجلی پیدا کرتے ہیں ، اس لیے اس کا استعمال احتیا ط سے کرنا چاہیے اور روشنی کے لیے ایل ای ڈی بلب استعمال کرنے چاہیں۔
اسد محمود نے کہا کہ صرف ایل ای ڈی بلب ہی نہیں بلکہ گھر کی دوسری چیزیں بھی سولر انرجی سے مطابقت رکھنے والی ہونی چاہیں ۔ سولر انرجی ڈی سی کرنٹ پیدا کرتی ہے اس لیے اس پر وہی مشینیں چلانی چاہییں جو ڈی سی کرنٹ پر چلیں اور سولر سسٹم کی لاگت کو کم کرنے کے لیے سسٹم کے ساتھ منسلک دوسرے آلات بھی انرجی ایفیشنٹ ہونے چاہییں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سولر سسٹم کی موجودہ لاگت کے پیش نظر پریکٹیکل یہ ہے کہ گھر کا پورا سسٹم سولر پر نہ کریں بلکہ صرف اسے بیک اپ کے طور پر استعمال کریں۔بالکل اسی طرح جیسے بجلی چلے جانے کی صورت میں جنریٹر کو بیک اپ کے طور پر رکھا جاتاہے ۔
شاہد صدیقی صاحب نے بتایا کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں لوڈ شیڈنگ کے وقت یا بجلی چلے جانے کی صورت میں یا جن علاقوں میں بجلی نہیں ہے ، گھر کا ایک کمرہ روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو انسٹال کرنے پر چار سے پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے خرچ ہو سکتے ہیں ۔ا ور اسی طرح اگر اس کے ساتھ ایک پنکھا بھی چلانا چاہیں تو یہ لاگت اسی حساب سے بڑھتی جائے گی لیکن یہ سب سرمایہ کاری صرف ایک بار کی ہوگی ا ور اس کے نتیجے میں بجلی کے بل کی جو بچت ہو گی و ہ بہت جلد آپ کا خرچہ آپ کو واپس کر دے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ روشنی ایل ای ڈی ہو پنکھا ڈی سی کرنٹ پر چلتا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں لوگ سولر سسٹم لگانے کے لیے موجود ہیں لیکن یہ سولر پینل الیکٹریکل کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص انسٹال کر سکتا ہے ۔
متبادل توانائی کے بورڈ کے چئیر مین عارف علاؤالدین نے جنریٹر اور سولر انرجی کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ سولر سسٹم زیادہ سستا پڑے گا لیکن اس وقت سسٹم میں استعمال ہونےوالی بیٹری مہنگی ہے ۔ سولر پینل 21سے 25 سینٹ فی گھنٹہ کی بجلی پیدا کر سکتا ہے ۔
عارف علاؤالدین نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر سولر انرجی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے حکومت بجلی خرید سکتی ہے اور ایک کلو واٹس یااس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ سولر انرجی پیدا کرنے والے آلات درا ٓمد کرنے کے لیے حکومت نے کسٹم ڈیوٹی معاف کر دی ہے ۔ا نہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ سولر پینل کے ساتھ بجلی پیدا کررہے ہیں اور اگر آپ کے پاس زائد بجلی ہے اور آپ کسی وجہ سے اس بجلی کو استعمال نہیں کر رہے اور اسے گرڈ میں ڈال دیں تو حکومت وہ اضافی سولر بجلی خرید سکتی ہے ۔
عارف علاؤالدین نے بتایا کہ پاکستان میں بہت سی این جی اوز سولر بجلی پیدا کر رہی ہیں اور ان کا ادارہ بھی مختلف مقامات پر اس حوالے سے کام کررہا ہے لیکن اس کا سب سے بڑاپراجیکٹ وہ تھا جس کے تحت مٹھی میں پچاس دیہاتوں میں تیس ہزار گھروں کو سولر انرجی فراہم کی گئی اور ہر گھر کو کو دو دو لائٹس اور ایک ایک پنکھا چلانے کے لیے سولر سسٹم لگا کر دیا تو اس پورے سسٹم پر ایک گھر میں چالیس ہزار روپے خرچ ہوئے اور اب جب کہ پینلز اور دوسرے متعلقہ آلات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اس لاگت میں اور کمی ہو سکتی ہے ۔
۔
موجودہ صورت حال میں پاکستان کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ چنانچہ یہاں آسانی سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں اس شعبے میں پیش رفت ہورہی ہے۔ عام افراد اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اس موضوع پر گفتگو کے لیے وائس آف امریکہ نے اپنے اسٹوڈیوز میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا ، جس میں ٹیلی فون کے ذریعے اسلام آباد سے پاکستان آلٹر نیٹ انرجی بورڈ کے چیئر مین عارف علاؤالدین صاحب ، کراچی سے یو این ڈی پی کے پاکستان میں جاری سمال گرانٹس پروگرام کے نیشنل کوآرڈی نیٹر مسعود لوہار، لاس اینجلس کیلی فورنیا سے سولر انرجی کے ماہر اور دنیا بھر میں ایل ای ڈی لائٹنگ سے متعلق صف اول کی ایک کمپنی لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او، جناب پرویز لودھی ، اور کراچی سے پاکستان میں سولر پینل بنانے والی ایک ممتاز کمپنی شان ٹکنالوجیز کے سولر ایکسپرٹ شاہد صدیقی شریک ہوئے۔
لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او پرویز لودھی نے کہا کہ شمسی توانائی کا استعمال گزشتہ کچھ برسوں میں پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے لیکن اس کے بارے میں عام لوگوں کو زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس سسٹم سے لوگوں کی توقعات بڑھ جاتی ہیں اور وہ کئی غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں ۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سولر پینلز سورج سے بہت سی روشنی کو لے کرقلیل مقدار میں بجلی پیدا کرتے ہیں ، اس لیے اس کا استعمال احتیا ط سے کرنا چاہیے اور روشنی کے لیے ایل ای ڈی بلب استعمال کرنے چاہیں۔
اسد محمود نے کہا کہ صرف ایل ای ڈی بلب ہی نہیں بلکہ گھر کی دوسری چیزیں بھی سولر انرجی سے مطابقت رکھنے والی ہونی چاہیں ۔ سولر انرجی ڈی سی کرنٹ پیدا کرتی ہے اس لیے اس پر وہی مشینیں چلانی چاہییں جو ڈی سی کرنٹ پر چلیں اور سولر سسٹم کی لاگت کو کم کرنے کے لیے سسٹم کے ساتھ منسلک دوسرے آلات بھی انرجی ایفیشنٹ ہونے چاہییں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سولر سسٹم کی موجودہ لاگت کے پیش نظر پریکٹیکل یہ ہے کہ گھر کا پورا سسٹم سولر پر نہ کریں بلکہ صرف اسے بیک اپ کے طور پر استعمال کریں۔بالکل اسی طرح جیسے بجلی چلے جانے کی صورت میں جنریٹر کو بیک اپ کے طور پر رکھا جاتاہے ۔
شاہد صدیقی صاحب نے بتایا کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں لوڈ شیڈنگ کے وقت یا بجلی چلے جانے کی صورت میں یا جن علاقوں میں بجلی نہیں ہے ، گھر کا ایک کمرہ روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو انسٹال کرنے پر چار سے پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے خرچ ہو سکتے ہیں ۔ا ور اسی طرح اگر اس کے ساتھ ایک پنکھا بھی چلانا چاہیں تو یہ لاگت اسی حساب سے بڑھتی جائے گی لیکن یہ سب سرمایہ کاری صرف ایک بار کی ہوگی ا ور اس کے نتیجے میں بجلی کے بل کی جو بچت ہو گی و ہ بہت جلد آپ کا خرچہ آپ کو واپس کر دے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ روشنی ایل ای ڈی ہو پنکھا ڈی سی کرنٹ پر چلتا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں لوگ سولر سسٹم لگانے کے لیے موجود ہیں لیکن یہ سولر پینل الیکٹریکل کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص انسٹال کر سکتا ہے ۔
متبادل توانائی کے بورڈ کے چئیر مین عارف علاؤالدین نے جنریٹر اور سولر انرجی کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ سولر سسٹم زیادہ سستا پڑے گا لیکن اس وقت سسٹم میں استعمال ہونےوالی بیٹری مہنگی ہے ۔ سولر پینل 21سے 25 سینٹ فی گھنٹہ کی بجلی پیدا کر سکتا ہے ۔
عارف علاؤالدین نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر سولر انرجی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے حکومت بجلی خرید سکتی ہے اور ایک کلو واٹس یااس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ سولر انرجی پیدا کرنے والے آلات درا ٓمد کرنے کے لیے حکومت نے کسٹم ڈیوٹی معاف کر دی ہے ۔ا نہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ سولر پینل کے ساتھ بجلی پیدا کررہے ہیں اور اگر آپ کے پاس زائد بجلی ہے اور آپ کسی وجہ سے اس بجلی کو استعمال نہیں کر رہے اور اسے گرڈ میں ڈال دیں تو حکومت وہ اضافی سولر بجلی خرید سکتی ہے ۔
عارف علاؤالدین نے بتایا کہ پاکستان میں بہت سی این جی اوز سولر بجلی پیدا کر رہی ہیں اور ان کا ادارہ بھی مختلف مقامات پر اس حوالے سے کام کررہا ہے لیکن اس کا سب سے بڑاپراجیکٹ وہ تھا جس کے تحت مٹھی میں پچاس دیہاتوں میں تیس ہزار گھروں کو سولر انرجی فراہم کی گئی اور ہر گھر کو کو دو دو لائٹس اور ایک ایک پنکھا چلانے کے لیے سولر سسٹم لگا کر دیا تو اس پورے سسٹم پر ایک گھر میں چالیس ہزار روپے خرچ ہوئے اور اب جب کہ پینلز اور دوسرے متعلقہ آلات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اس لاگت میں اور کمی ہو سکتی ہے ۔
No comments:
Post a Comment