الزبتھ ٹورس کا اسلامی تعلیمات میں دلچسپی لینا ایک غیر متوقع صورتحال ہے۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں میں ان کے خاندان کے آٹھ افراد ہلاک ہوئے جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں کام کرتے تھے۔ بعد میں ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی تھی۔
ٹورس کا کہنا ہے کہ وہ بہت عرصے تک روحانی سکون کی تلاش میں تھیں، جو انہیں چند برسوں کے بعد مراکش میں ملا۔ اور انہوں نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے خود سے 22 سال کم عمر ایک مصری شخص سے شادی کی، جس کے بعد وہ الزبتھ ٹور سے صفیہ ال کسبی بن گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ مذہب آپ کو تباہی پھیلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ جن لوگوں نے یہ حملے کیے انہیں استعمال کیا گیا تھا۔
صفیہ دو سال تک امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے ٹمپا کی سب سے بڑی مسجد میں بطور بزنس منیجر کام کرتی رہیں۔ جہاں صفیہ کے مطابق وہ لوگوں کو قرآنی تعلیمات اور مروجہ رسوم و رواج میں پائے جانے والے فرق سے آگاہ کرتی رہیں۔لیکن اس کا نتیجہ ان کی برطرفی کی شکل میں نکلا۔
وہ کہتی ہیں کہ جب ایک کام روزمرہ بنیاد پر کیا جائے تو اسے مذہب کا حصہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ اسلام کسی کو نہیں کہتا کہ جاؤ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاؤ۔
اسلام قبول کرنے کے بعد صفیہ کو اپنے خاندان کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی سیلویا جو ایک فوجی کی بیوہ ہے ان سے بات نہیں کرتی جبکہ انکی سولہ سالہ بیٹی نتالیا کو اپنے دوستوں کی جانب سے حوصلہ شکن رویے برداشت کرنے پڑے۔
گھر سے باہر نکلتے ہوئے صفیہ کا حلیہ روایتی مسلمان خواتین جیسا نہیں ہوتا ۔ غیرمسلموں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے کئی واقعات کے بعد اب وہ سر پر حجاب لینے سے گریز کرتی ہیں۔
صفیہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ غیر روایتی مسلمان ہیں مگر اسلام کا راستہ انہوں نے اپنی مرضی سے منتخب کیا ہے اور وہ اپنے مذہب کی پیروی کرتی رہیں گی۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کے لیے وہ اسلام کی بجائے چند انسانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔
ٹورس کا کہنا ہے کہ وہ بہت عرصے تک روحانی سکون کی تلاش میں تھیں، جو انہیں چند برسوں کے بعد مراکش میں ملا۔ اور انہوں نے اسلام قبول کیا اور انہوں نے خود سے 22 سال کم عمر ایک مصری شخص سے شادی کی، جس کے بعد وہ الزبتھ ٹور سے صفیہ ال کسبی بن گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ مذہب آپ کو تباہی پھیلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ جن لوگوں نے یہ حملے کیے انہیں استعمال کیا گیا تھا۔
صفیہ دو سال تک امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے ٹمپا کی سب سے بڑی مسجد میں بطور بزنس منیجر کام کرتی رہیں۔ جہاں صفیہ کے مطابق وہ لوگوں کو قرآنی تعلیمات اور مروجہ رسوم و رواج میں پائے جانے والے فرق سے آگاہ کرتی رہیں۔لیکن اس کا نتیجہ ان کی برطرفی کی شکل میں نکلا۔
وہ کہتی ہیں کہ جب ایک کام روزمرہ بنیاد پر کیا جائے تو اسے مذہب کا حصہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ اسلام کسی کو نہیں کہتا کہ جاؤ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاؤ۔
اسلام قبول کرنے کے بعد صفیہ کو اپنے خاندان کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی سیلویا جو ایک فوجی کی بیوہ ہے ان سے بات نہیں کرتی جبکہ انکی سولہ سالہ بیٹی نتالیا کو اپنے دوستوں کی جانب سے حوصلہ شکن رویے برداشت کرنے پڑے۔
گھر سے باہر نکلتے ہوئے صفیہ کا حلیہ روایتی مسلمان خواتین جیسا نہیں ہوتا ۔ غیرمسلموں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے کئی واقعات کے بعد اب وہ سر پر حجاب لینے سے گریز کرتی ہیں۔
صفیہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ غیر روایتی مسلمان ہیں مگر اسلام کا راستہ انہوں نے اپنی مرضی سے منتخب کیا ہے اور وہ اپنے مذہب کی پیروی کرتی رہیں گی۔ گیارہ ستمبر کے واقعات کے لیے وہ اسلام کی بجائے چند انسانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment