Sunday, September 16, 2012






ذیابطیس سے چھاتی کے سرطان کا زیادہ امکان

ذیابطیس اور چھاتی کے سرطان کو اکثر وزن میں زیادتی سے منسلک کیا جاتا ہے

 

ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابطیس ٹائپ ٹو میں مبتلا بڑی عمر کی خواتین میں چھاتی کا سرطان ہونے کا امکان ستائیس فی صد زیادہ ہوتا ہے

برٹیش جرنل آف کینسر نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بین الاقوامی محققین کی ایک ٹیم نے ذیابطیس اور چھاتی کے سرطان کے درمیان ممکنہ تعلق کو سمجھنے کے لیے چالیس مختلف تحقیقات کا جائزہ کیا۔

ان تحقیقات میں چھاتی کے سرطان میں مبتلا چھپن ہزار خواتین نے حصہ لیا تھا۔

وزن کا زیادہ ہونا بھی دونوں بیماریوں سے منسلک ہے۔ تاہم سرطان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابطیس اور چھاتی کے سرطان کے درمیان براہِ راست تعلق کا امکان بھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ذیابطیس ٹائپ ٹو میں مبتلا کم عمر کی خواتین یا ٹائپ ون ذیابطیس کی خواتین کا چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا کوئی غیر عمومی امکان نہیں ہے۔

اس رپورٹ پر کام کرنے والی ٹیم کے سربراہ اور انٹرنیشنل پریونشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے صدر پیٹر بوئل کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اس وقت یہ معلوم نہیں کہ ٹائپ ٹو کی ذیابطیس چھاتی کے سرطان کا امکان کیوں بڑھا دیتی ہے۔‘

’ایک طرف تو ان دونوں بیماریوں کو اکثر وزن میں زیادتی سے منسلک کیا جاتا ہے تاہم اس بات کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا کہ ذیابطیس کے اثرات چھاتی کے سرطان کو جنم دے سکتے ہیں۔‘

’کینسر ریسرچ یو کے‘ میں نرسوں کے معلوماتی سربراہ مارٹن لیڈوک کا کہنا ہے کہ ’اس رپورٹ سے یہ واضح نہیں کہ بڑی عمر کی خواتین میں ذیابطیس براہِ راست چھاتی کے سرطان کا خطرہ بڑھتی ہے تاہم زیادہ وزن دونوں بیماریوں کا امکان پیدا کرتا ہے، اس وجہ سے خواتین کے لیے وزن پر قابو پانا ہی بہتر ہے۔‘

ایپل نے آئی فون 5 لانچ کر دیا 


آئی فون 5
آئی فون 5 اکیس ستمبر سے بازار میں فروخت ہونے لگے گا

مشہور ٹیکنالوجی کمپنی اپیل نے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں ایک تقریب کے دوران آئی فون کا نیا ورژن آئی فون 5 متعارف کروایا ہے۔یہ فون ماضی کے آئی فون کے مقابلے میں قدرے لمبا ہے اور فور جی نیٹورک سے ہم آہنگی رکھتا ہے۔ آئی فون کے مقابلے میں بڑی سکرین والے اس فون میں صارفین کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ سکرین پر ’آئکنز‘ کی ایک اور قطار بھی دیکھ سکتے ہیں۔

ایپل کا کہنا ہے کہ ان کا یہ نیا فون برطانیہ کے 4 جی ایل ٹی نیٹورک ای ای یعنی ( Everything Everywhere) پر بھی چل سکے گا۔ایپل کا کہنا ہے کہ نیا فون اکیس ستمبر سے مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔ایپل کا دعویٰ ہے کہ آئی فون 5 کی سکرین بالکل ایسی ہی ہے جیسے وائڈ سکرین ٹی وی کی ہوتی ہے۔لیکن ابھی بھی گیارہ سینٹی میٹر لمبی سکرین والے اس فون کا سائز ایپل کی حریف کمپنیوں کے سمارٹ فون جیسے نوکیا، سیم سنگ، موٹورولا، اور ایل جی کے فون سے چھوٹا ہی ہے۔اس فون میں کیمرہ آئی فون 4 کی طرح آٹھ ميگا پکسل کا ہی ہے۔ایپل کی عالمی مارکیٹنگ کے نائب صدر فل شلر کا کہنا ہے کہ اس فون میں بعض ایسے سافٹ ویئر ہیں جس کی وجہ سے کم روشنی میں بھی اس فون کا کیمرہ بہترین تصاویر کھینچے گا۔اس فون میں نوکیا لوما92 کی طرح وائرلیس طریقے سے فون چارج کرنے کی سہولت نہیں ہے۔یہ فون سولہ جی بی، بتیس جی بی، اور چونسٹھ جی بی کے میموری کارڈ کے ساتھ فروخت کیا جائے گا۔اطلاعات کے مطابق اس فون کے بنیادی ماڈل کی قیمت برطانیہ میں پانچ سو انتیس پاؤنڈ ہوگی جبکہ اگر اس فون کو کسی نیٹورک کے کانٹریکٹ سے ساتھ خریدا جائے گا تو اس کی قیمت کم ہو جائے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی فون 5 میں ایپل کی حریف کمپنیوں کے سمارٹ فونز کے مقابلے میں سہولیات کم ہیں لیکن پھر بھی یہ فون لوگوں کو بے حد پسند آئے گا اور صارفین میں کافی مقبول ہوگا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فون کی فروخت مستقبل میں ایپل کمپنی کی مالیت کا فیصلہ کرے گی یعنی اس کی فروخت ایپل کی آمدنی کا اہم حصہ ہوگی۔

جنگ 1971: حقیقتیں اور افسانے

نام کتاب: ڈیڈ ریکوننگ، میموریز آف دی 1971 بنگلہ دیش وار

(شمارِ کُشتگاں، جنگ 71

ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان۔ پی او بکس 8214، کراچی۔ 74900

سرمیلا بوس کی یہ کتاب ان تمام باتوں کی تردید کرتی ہے جو اب تک 1971 کی جنگ کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں نہ تو اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کے مطابق تھا اور نہ ہی یہ کہ تشدد صرف پاکستانی فوجیوں نے کیا تھا۔

سرمیلا کہتی ہیں کہ انھیں 1971 کی جنگ کے حوالے سے جو دستاویزات دیکھنے کو ملیں وہ اتنی کمزور تھیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی دعویٰ کرنا کسی طرح دانشمندی نہیں۔

وہ پاکستانی فوج پر الزامات کی صفائی تو پیش نہیں کرتیں لیکن یہ اصرار ضرور کرتی ہے کہ پاکستانی فوج پر نسل کشی، جنسی زیادتیوں اور تشدد کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ آپریشن میں شریک تمام فوجیوں پر یکساں نہیں لگائے جا سکتے۔

ان کے اس موقف کے حق میں کتاب میں ایسے بنگالی مردوں اور عورتوں کے انٹرویو بھی ہیں جو بتاتے ہیں کہ پاکستانی فوج میں جو بلوچ تھے ان کا سلوک بنگالیوں سے اچھا تھا۔ ان انٹرویوز سے ایسا لگتا ہے کہ اس زمانے میں ’بلوچ‘ یا ’بلوچی‘ بنگالیوں کے لیے ایک ایسی اصطلاح بن گئی تھی جس کے معنی تھے ’ اچھا یا تحفظ دینے والا فوجی‘۔

سرمیلا بوس آپریشن اور جنگ کے دوران ہونے والے پروپیگنڈے اور افواہوں کا بھی ذکر کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ڈھاکہ میں 14 اور 15 دسمبر کو آزادی کی حامی بنگالی دانشوروں کو ان کے گھروں سے اغوا کیے جانے اور بعد میں قتل کیے جانے میں بھی پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس سلسلے میں انھوں نے نہ صرف پاکستانی فوجی افسروں کے تردیدی بیانات نقل کیے ہیں بلکہ مارے جانے والے دانشوروں کے خاندانوں کے وہ بیانات بھی پیش کیے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کو گھروں سے لے جانے والے وہ مسلح سویلین تھے جو فوج کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ ’البدر‘ کا نام لیتے ہیں۔ جو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نوجوانون رضاکاروں کی تنظیم تھی اور بنگالیوں پر ہی مشتمل تھی۔

اسی طرح وہ 26-25 مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ویمن ہاسٹل پر پاکستانی فوجی حملے کا ذکر کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ خبر اڑی لیکن درست ثابت نہ ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ یکم اپریل کو جیسور میں پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل کی عالمی ذرائع ابلاغ سے بھی سامنے آئی لیکن حقیقت یہ تھی کہ جیسور میں آزادی کے حامی بنگالیوں نے مغربی پاکستانیوں کو مارا تھا۔ وہ ایسے کئی واقعات کی مثالیں دیتی ہیں۔

مصنفہ: سرمیلا بوس

مصنفہ: سرمیلا بوس

ان کا کہنا ہے کہ علیحدگی کے حامی بنگالی مغربی پاکستانی فوجیوں کو انویڈر یا درانداز کہتے تھے جبکہ اس جنگ میں درانداز صرف ہندوستان تھا۔

سرمیلا نے جو بیش تر حوالے دیے ہیں وہ مختلف لوگوں کے انٹرویو ہیں۔ یہ انٹرویو دینے والے پاکستانی بھی ہیں اور بنگالی بھی۔ اس کے علاوہ وہ ان خبروں اور مضامین پر بھی انحصار کرتی ہیں جو جنگ کے دوران اور بعد میں، جنگ کے حوالے سے بنگلہ دیش، ہندستان اور پاکستان میں شائع ہوئے۔ پھر کتاب میں حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کے حوالے بھی ہیں۔ یہ رپورٹ جنگ کے بعد پاکستان میں ایک تحقیقاتی کمیشن نے تیار کی تھی لیکن پاکستان ہی میں اسے ایک عرصے تک شائع نہیں کیا گیا اور پاکستان میں ایسے حلقے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس کمیشن کی رپورٹ اب من و عن سامنے نہیں آئی اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں جس نوع کا پاور سٹرکچر ہے اس میں فوج اور اس کے اقدام کے حوالے سے کوئی غیرجانبدار تحقیق کی نہیں جا سکتی۔

سرمیلا نے اس کتاب کی تیاری میں ایک عرصہ صرف کیا ہے۔ میں نے اس حوالے سے ان کا ایک مضمون سب سے پہلے ہندوستان کے ایک انتہائی معتبر رسالے اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں پڑھا تھا۔ یہ مضمون اکتوبر 2005 میں شائع ہوا تھا۔ اس میں بھی انھوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ’ہر چند کہ 1971 کا تنازع پاکستان اور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) کا انتہائی جذباتی معاملہ ہے، لیکن نو ماہ تک جاری رہنے والی اس خانہ جنگی کا اب تک ایسا منظم مطالعہ نہیں کیا گیا جیسا کہ کیا جانا چاہیے۔ اب تک عام طریقہ یہ رہا ہے کہ اس تنازع میں زیادہ توجہ بنگالیوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں پر دی جاتی ہے یا اسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بہرطور، مشرقی پاکستان 1971 میں ایک ایسا میدان جنگ تھا جس میں کئی متشدد فریق ایک ساتھ سرگرمِ عمل تھے، ان میں شدت پسند باغی بھی تھے، تشدد پر آمادہ ہجوم بھی، شہریوں کے خلاف فوجی آپریشن بھی کیا جا رہا تھا اور ایسی شہری دہشت گردی بھی جاری تھی، جو ہندستان اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ 1971 کے تنازعے میں تشدد کی اسی ثقافت نے بعد میں بنگلہ دیش کی تاریخ کے بیش تر تناظر کو شکل دی۔ 1971 کے تنازعے کو سمجھنے کے لیے ایک ایسا طریقہ انتہائی اہم ہے جس میں پوری احتیاط سے کام لیا جائے اور جو شہادتوں پر مبنی ہو لیکن یہ تبھی ہو سکتا ہے جب تنازعے کے تمام فریق کسی طور ہم آہنگ ہو جائیں‘۔

سرمیلا برصغیر کے معروف رہنما سبھاش چندر بوس کی پوتی ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کولکتہ میں حاصل کی اور ہاورڈ یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ لی اور اب اوکسفرڈ یونیورسٹی سے بطور سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔

سرمیلا کی یہ کتاب پاکستان میں بے لگام قوم پرستانہ جذبات رکھنے والوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے خوشی کا باعث ہو گی کیونکہ سرمیلا بوس ایک بنگالی ہیں، ہندوستانی ہیں اور ہندو بھی اور ان کی ان شناخت پر کوئی بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ یہی بات ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ان لوگوں کو ضرور مشتعل کرے گی جو قوم پرستی کا کاروبار کرتے ہیں یا وہ جو تاریخ کے مقبول سیاسی بیانیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

کتاب کے سلسلے میں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ سرمیلا نے جن شواہد کو بنیاد بنایا ہے، کیا انھیں تاریخی شواہد کہاجا سکتا ہے؟