Saturday, July 21, 2012

سیاحتی مقام کے طور پر سوات کی رونقیں بحال

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک بڑے سیاحتی مرکز کی حیثیت رکھنے والا ضلع سوات گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پہلے دہشت گردی، پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پھر دو ہزار دس میں سیلاب کی زد میں رہا۔ لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا کہ یہ وادی ان اثرات سے باہر نکل رہی ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور سکیورٹی کے لیے تعینات فوج سوات کو ایک پر امن اور سیاحت کے لیے موزوں مقام کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
کالام ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر ملک عبدالودود جو خود بھی ہوٹل کے مالک ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ سوات میں سیاحت بحال ہو چکی ہے۔ خراب سڑکوں اور مواصلات کا نظام نہ ہونے کے با وجود اس مرتبہ پچھلے سال کے مقابلے میں کافی زیادہ سیاح آ رہے ہیں اور بقول ان کے انھوں نے پہلے کبھی اتنا رش نہیں دیکھا۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی فوج نے سکیورٹی کا اچھا خاصا انتظام کیا ہے اور راستوں کو بھی اس حد تک ہموار کر دیا ہے کہ موٹر کار اور دوسری چھوٹی گاڑیوں میں بہت زیادہ لوگ آ رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو تو ہوٹلوں میں رہائش کے لیے جگہ بھی نہیں مل پا رہی

امریکہ: ایڈز سے بچاؤ کی دوا کی منظوری 


امریکہ میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے پہلی بار ایچ آئی وی یا ایڈز کے انفیکشن کو روکنے میں مدد فراہم کرنے والی دوا ’ٹروویدا‘ کی منظوری دی ہے۔
امریکی ماہرین نے ٹروویدا کی منظوری منگل کو دی۔ 
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ ٹروویدا کو ایسے افراد استعمال کر سکیں گے جن میں ایچ آئی وی یا ایڈز کے انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہو۔
واضح رہے کہ امریکہ میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایڈوائزی کمیٹی نے رواں برس مئی میں تین کے مقابلے میں انیس ووٹوں سے ٹروویدا کی منظوری دی تھی۔
امریکہ میں ایچ آئی وی کمیونٹی میں صحت کے شعبے سے متعلق چند کارکنوں اور گروپوں نے ٹروویدا کی منظوری کی مخالفت کی تھی۔
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ایک بیان میں زور دیتے ہوئے کہا کہ ٹروویدا کو آئی ایچ آئی یا ایڈز کے منصوبے کے مطابق استعمال کیا جانا چاہیے جس میں کنڈوم کا استعمال اور ایچ آئی وی کے باقاعدہ ٹیسٹ کروانا شامل ہے۔
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ایچ آئی وی میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے پہلے ہی ٹروویدا کے استعمال کی منظوری دے چکی ہے۔
سنہ دو ہزار دس میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ ’ٹروویدا‘ کے استعمال سےصحت مند افراد میں ایچ آئی وی میں کمی ہوئی ہے۔

Friday, July 20, 2012

رمضان المبارک کی خاص ڈش : گولا کباب




اجزاء
قیمہ ایک کلو
ادرک لہسن پسا ہوا دو کھانے کے چمچ
پیاز باریک کٹی ہوئی دو عدد درمیانی
نمک حسب ذائقہ
لال مرچ پسی ہوئی دو کھانے کے چمچ
سفید زیرہ ایک چائے کا چمچ
ثابت دھنیا ایک کھانے کے چمچ
گرم مصالحہ پسا ہوا دو کھانے کے چمچ
کچا پپیتا پسا ہوا دو کھانے کے چمچ
دہی آدھی پیالی
کوکنگ آئل آدھی پیالی
سجانے کے لیئے
پیاز کے لچھے حسب پسند
لیموں کے قتلے حسب پسند
ترکیب
قیمہ میں ادرک ،لہسن نمک ،پیاز ،لال مرچ ،زیرہ دھنیا گرم مصالحہ اور پپیتا ملا کر پیس لیں ۔
دو سے تین گھنٹے فریج میں رکھنے کے بعد اس میں دہی اوردو کھانے کے چمچ کوکنگ آئل شامل کر لیں ۔
ایک سائز کے گول کباب بنا کر سیخوں پر لگائیں ۔دہکتے ہوئے کوئلوں یا گرل پر سینک لیں ،جب پکنے پر آجائے تو ململ کے کپڑے یا ٹشو کی مدد سے کوکنگ آئل لگا تے جائیں ۔
پریزنٹیشن
پیاز کے لچھے اور لیموں کے قتلوں سے سجا کر رائتے کے ساتھ پیش کریں

Saturday, July 14, 2012

ہمارا دوسرا دماغ ہمارے معدے میں ہے



جب ہم اپنے معدے میں گدگدی محسوس کرتے ہیں تو اس وقت معدے میں موجود دماغ کھوپٹری میں موجود دماغ سے بات کر رہا ہوتا ہے
ہمارا معدہ ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کئی کے لیے ایک تاریک معمہ ہو لیکن ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کس طرح سے معدہ میں آنتیں ہمارے رویے اور بھوک کو کنٹرول کرتی ہیں۔
اب ہمارے میں سے بہت سارے اپنے معدہ میں انہضام نظام کے عمل کو دیکھ سکتے ہیں۔
لندن کے سائنس میوزیم میں لوگ کے سامنے میں نے اپنے ہی معدہ کو ایک بڑی سکرین پر دیکھا۔
ناشتے میں دلیہ کھایا اور بڑی سکرین پر دیکھا کہ کس طرح سے یہ معدے میں ٹوٹتا ہے اور ایسڈ میں تبدیل ہوتا ہے اور کس طرح سے چھوٹی آنت میں ایک کریمی گودے ( کایم) کی طرح جاتا ہے۔
ہماری آنت میں دس کروڑ کے قریب برین سیلز ہوتے ہیں اور یہ تعداد بلی کے دماغ میں پائے جانے والے سیلز کے برابر ہے۔
میں نے ایک ننھا سا کمیرہ گولی کی طور پر نگلا تاکہ یہ سارا دن عمل انہضام نظام سے تصاویر ایک بڑی سکرین پر بھیجتا رہے۔
اس کا پہلا پڑاؤ میرا معدہ تھا یہاں پیچیدہ عمل قابو میں تھا اور اس کو بعض اوقات چھوٹا دماغ کہا جاتا ہے، اس میں نیورونز کا ایک نیٹ ورک ہے جو معدے اور آنت کو کنٹرول کرتا ہے۔
ایک ننھا سا کمیرہ گولی کی طور پر نگلا تاکہ یہ سارا دن عمل انہضام نظام سے تصاویر ایک بڑی سکرین پر بھیجتا رہے
یہ چھوٹا سا دماغ کوئی بہت زیادہ پیچیدہ سوچ و بچار نہیں کرتا ہے لیکن یہ روزانہ کے ضروری معاملات سرانجام دیتا ہے، جیسا کہ خوراک کو ہضم کرنے کے حوالے سے اس کو پیسنا، اس کو بہت زیادہ ملانا یا آمیزش کرنا اور اس کو ہضم کرنا، خوراک کو توڑنا اور اس میں سے ہماری ضرورت کے مطابق وٹامنز اور غذائی اجزاء کو نکالنا شامل ہے۔
یہ تمام نیورونز انہضام نظام کو ہمارے دماغ سے قریبی رابطے میں رکھتے ہیں اور اس میں ’واگس اعصاب‘ بھی شامل ہوتے ہیں جو اکثر ہماری جذباتی کیفیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب ہم اپنے معدے میں گدگدی محسوس کرتے ہیں تو اس وقت معدے میں موجود دماغ کھوپٹری میں موجود دماغ سے بات کر رہا ہوتا ہے۔
جب ہم خوف یا ڈر محسوس کرتے ہیں تو اس وقت خون آنت سے پٹھوں میں منتقل ہو جاتا ہے اور اس صورت میں ہمارا معدہ احتجاج کر رہا ہوتا ہے۔
جب ہم بہت زیادہ کھانا کھاتے ہیں تو اس وقت ہمارا معدہ تقریباً چالیس فیصد بڑھ جاتا ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ معدے میں پھیلے عضو دماغ کو پیغام دیتے ہیں کہ معدہ بھر چکا ہے اور اب کھانا ختم کرنے کا وقت ہے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ بھوک کے پیغامات ہمارے معدے سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ ان سے بہت زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب آپ زیادہ کھانا کھاتے ہیں تو آرام کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خون کی ایک تہائی مقدار آپ کی آنت میں منتقل ہو جاتی ہے تاکہ وہ اپنا ضروری کام کر سکے۔ اسی لیے ہمیں بچپن میں کہا جاتا تھا کہ پہلے خوراک ہضم ہونے دیں اور اس کے بعد ہی کوئی زور لگانے والا کام کرنا ہو تو کریں۔

’سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کی بڑی قدر‘

سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ ’سرن ‘سے منسلک ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق سرن لیبارٹری کے ساتھ تیس کے قریب پاکستانی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ انیس سو چورانوے میں سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا اور اس وقت سے اب تک تقریباً سو سے زائد سائنسدان سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
سرن کے ہیڈرون کولائیڈر منصوبے سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق ایک وقت میں لیبارٹری میں پندرہ کے قریب سائنسدان کام کرتے ہیں اور باقی سائسندان پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو ویلیو ایڈیشن کہا جاتا ہے۔
’سرن سے مختلف مواد تحقیق کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہاں پاکستان میں اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف ماڈلز تیار کر کے واپس بھیجے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق نیشنل سینٹر فار فزکس اور پاکستان کے جوہری ادارے ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت اور قابلیت کی یورپ میں، خاص طور پر سرن سے متعلق کام کے حوالے سے بہت قدر کی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے چالیس سائنسدان سرن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کی تعداد تیس ہے۔
’سرن میں بھارتی سائنسدان صرف ایک منصوبے میں جبکہ پاکستانی سائنسدان دو پراجیکٹس’سی ایم ایس اور ایلس‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس شعبے کو( Experimental High Energy Physics) کہتے ہیں اور یہ سرن کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرن میں دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے سائنسدان کام کرتے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اس سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
’سرن میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں جو کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں، اور ان آلات پر ہمیں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘
ڈاکٹر حفیظ ہورانی سے سیکھے گئے تجربات اور علم کو دیگر پاکستانی سائنسدانوں تک منتقل کرنے کے لیے اس شعبے کو نصاب میں شامل کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

Saturday, July 7, 2012


وقت میں ایک سیکنڈ کا اضافہ 


دنیا میں وقت ناپنے کے دو بین الاقوامی طریقے مقرر کیے گئے ہیں
سنیچر کی رات دنیا بھر کی الیکٹرانک گھڑیوں میں ایک سیکنڈ کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ وہ زمین کی روزانہ گردش سے تال میل برقرار رکھ سکیں۔
گھڑیوں کے ایجاد سے پہلے لوگ وقت کا اندازہ آسمان میں سورج کے مقام سے لگاتے تھے لیکن جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی، یہ پتہ چلا کہ زمین کو سورج کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرنے میں ٹھیک چوبیس گھنٹے نہیں لگتے ہیں 
اس تاخیر کی وجہ مدوجزر اور موسمیاتی و ارضیاتی تبدیلیاں ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مقررہ وقت کے بعد دنیا بھر کی گھڑیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ حکومتیں اور سائنسدان وقت اس تبدیلی کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے دنیا بھر کے کمپیوٹر نیٹ ورکس کو خطرہ ہو سکتا ہے.
تاہم اس عمل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ قدرتی نظام میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہوگا۔ ان کے مطابق اگر اس ایک سیکنڈ کا اضافہ نہیں ہوتا تو وقت ناپنے والی ہماری گھڑیاں اور زمین کی گردش کے وقت کے درمیان کا فاصلہ بڑھ جائےگا جو مستقبل میں خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
دنیا میں وقت ناپنے کے دو بین الاقوامی طریقے مقرر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک بین الاقوامی ایٹمی وقت جو دنیا بھر میں پھیلی ایٹمی گھڑیوں پر مبنی ہے اور دوسرا يونورسل ٹائم 1 جو گرينچ مین ٹائم کا جانشین ہے جس میں وقت کا تعین آسمان میں سورج کے مقام سے کیا جاتا ہے۔
پہلے طریقے کے مطابق ایٹمی گھڑیوں کو قریب ہر اٹھارہ ماہ بعد بہتر کیا جاتا ہے تاکہ وقت ناپنے کے طریقوں میں ایک سیکنڈ سے زیادہ کا فرق نہ آئے۔