جھوٹ پکڑنے کے طریقے
کئی لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ کچھ اپنے مفادکے لیے، کچھ مصلحت کے تحت اور کئی محض دوسروں کو پریشان کرکے لطف اٹھانے کے لیے۔ جھوٹ بڑی حیثیت رکھنے والے بھی بولتے ہیں اور عام افراد بھی۔ بڑے آدمی کے جھوٹ کا اکثر اوقات اس کے بولنے کے دوران ہی پتا چل جاتا ہے ، لیکن کوئی اسے کہہ نہیں سکتا۔ جب کہ چھوٹے آدمی کے جھوٹ پر عموماً کوئی دھیان نہیں دیتا۔
پنوکیو جب جھوٹ بولتا ہےتو اس کی ناک لمبی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پنوکیو کی کہانی دنیا بھر کے بچے پڑھتے ہیں اور اس کےترجمے اکثر زبانوں میں موجود ہیں۔ مگر دنیا میں جھوٹ پھر بھی بولاجاتا ہے اور ایسے افراد کم کم ہی ہوں گے جو یہ دعویٰ کرسکیں کہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ماسوائے ایک شخص کے۔
خلیل جبران نے اپنے ایک افسانے میں لکھاہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سوائے ایک جھوٹ کے کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔
کہتے ہیں کہ پہلا جھوٹ مشکل ہوتا ہے، دوسرے پر ہچکحاہٹ ہوتی ہے اور تیسرے جھوٹ پر ندامت یا پشمانی کا احساس نہیں ہوتا۔اور پھر انسان بڑے اعتماد سے جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہناہےکہ جس طرح بڑے سے بڑا مجرم اپنے پیچھے کوئی ایسی نشانی چھوڑ جاتا ہے جو اس تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے اسی طرح ہر جھوٹے سے بھی کوئی ایسی حرکت ضرور سرزد ہوجاتی ہے جس سے شک کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
ممکن ہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو مگرآپ کو ایسے بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا ہوگا جن کے جھوٹ سے آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی یا آپ کو نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن مستقبل میں آپ ایسے کسی نقصان سے بچ سکتے ہیں کیونکہ نفسیاتی ماہرین نے طویل تحقیق کے بعد جھوٹ پکڑنے کے چند طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ یہ طریقے ایسے ہیں جن کے لیے آپ کوکسی مشین کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی لمبی چوڑی تحقیق کی۔
ماہرین کا کہناہے کسی شخص کی حرکات و سکنات کی بنا پر آسانی سے یہ تعین کیا جاسکتا ہے کہ آیا کہ وہ سچ بول رہاہے یا جھوٹ۔
ماہرین کے مطابق گفتگو کے دوران ہاتھ اور بازوں کی حرکت اور چہرے کے تاثرات سچ اور جھوٹ ظاہر کردیتے ہیں ۔کیونکہ جھوٹے شخص کے چہرے پر تناؤ ہوتا ہے اور ہاتھوں اور بازوں کی حرکت اس کی گفتگو کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی۔
جھوٹا شخص آنکھ ملاکر بات کرنے سے کتراتا ہے۔
جھوٹ بولنے والا غیر ارادی طور پر اپنے چہرے، گردن اور منہ پر ہاتھ پھیرتا رہتا ہے اور ناک یا کان کو کھجاتا نظر آتا ہے۔
کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرین کا کہناہے کہ چہرے کے اعصاب یہ بتا دیتے ہیں کہ انسان سچ بول رہاہے یا جھوٹ۔
ڈاکٹر برنکے کہتے ہیں کہ آپ صرف مسکراہٹ دیکھ کر ہی یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ آپ کا مخاطب سچ بول رہا ہے یا سچ کو چھپا رہا ہے۔ کیونکہ انسانی جذبات جھوٹ کاساتھ نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص اپنی گفتگو میں مسرت، دکھ یا محبت کا اظہار کررہاہو اور وہ اپنے اظہار میں سچا نہ ہوتو اس چہرے پر تاثرات تاخیر سے ظاہر ہوں گے اور اچانک غائب ہوجائیں گے۔ جب کہ سچے جذبات اظہار سے پہلے چہرے پر آجاتے ہیں اور دیر تک برقرار رہتے ہیں۔
جھوٹ بولنے والے کئی افراد اپنی باتوں کا یقین دلانے اور نارمل نظر آنے کے لیے مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر برنکے کہتے ہیں کہ حقیقی مسکراہٹ میں چہرے کے سارے اعصاب حصہ لیتے ہیں اوردیکھنے والے کو پورا چہرہ کھلا ہوا سا دکھائی دیتا ہے۔ سچی مسکراہٹ دیر تک قائم رہتی ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی ہے۔ جب کہ زبردستی کی مسکراہٹ صرف ہونٹوں اور اس کے آس پاس کے اعصاب تک محدود رہتی ہے۔ منصوعی مسکراہٹ کے دوران گال اور آنکھوں کی بھوئیں اپنی نارمل حالت میں رہتی ہیں۔
ڈاکٹر برنکے کی ٹیم نے اپنی تحقیق کے لیے 52 افراد کے چہروں کے تاثرات کا تفصیلی تجزیہ کیا اور ان کے چہروں کے23000 سے زیادہ ویڈیو فریم بنائے گئے۔ چہرے کے تاثرات کے معائنے نے 26 افراد کے جھوٹے ہونے کی نشاندہی کی۔ جب ماہرین نے ان سے منسلک حقائق کا جائزہ لیا تو ان کے جھوٹے ہونے کی تصدیق ہوگئی۔
ماہرین کا کہناہے کہ جھوٹا شخص گفتگو میں دفاعی انداز اپناتا ہے جب کہ سچے کا رویہ عموماً جارحانہ ہوتا ہے۔
جھوٹے سے اگر کچھ پوچھا جائے تو اس پر گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے، جسے وہ چھپانے کے لیے اپنے سراور گردن کو بار بار حرکت دیتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ کئی غیر شعوری حرکتوں سے بھی جھوٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر اگر جھوٹ بولنے والا آپ کے سامنے بیٹھا ہے تو وہ بات کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر اپنے سامنے رکھی ہوئی کوئی چیز اٹھا کر اپنے اور آپ کے درمیا ن رکھ لے گا۔ وہ یہ عمل لاشعوری طورپر خودکو محفوظ بنانے کے لیے کرتا ہے۔
اگر جھوٹے سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ جواب میں غیر ارادی طورپر سوال کے ہی کچھ لفظ دوہرا دیتا ہے۔
اکثر جھوٹ بولنے والے صاف کہنے کی بجائے بات کوگھمانے اور الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جھوٹا انسان ایک نارمل شخص سے زیادہ بولتا ہے اور غیر ضروری اور غیر متعلقہ تفصیلات بیان کرتا ہے ۔ وہ خاموش ہونے سے اس لیے ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی ایسا سوال نہ پوچھ لیا جائے، جس سے اس کا جھوٹ پکڑا جائے۔
ایک کہاوت ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ مگر جھوٹا شخص کئی جھوٹ بولنےکے بعد اس لیے پکڑا جاتا ہے کیونکہ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ پہلے کیا کچھ کہہ چکاہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ آیا آپ کا مخاطب جھوٹ تو نہیں بول رہا، فوراً گفتگو کا موضوع تبدیل کردیں۔ اگر وہ سکون اور اطمینان محسوس کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ جھوٹ بول رہاتھا۔ جب کہ سچا شخص اچانک موضوع بدلنے سے پریشان ہوجاتا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے آپ کو اصل موضوع پر لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔
نفسیاتی ماہرین کا کہناہے کہ بعض افراد کے اعصاب اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ اپنا جھوٹ ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ اور بعض اوقات سچ بولنے والا اتنی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس کا سچ بھی جھوٹ لگنے لگتا ہے۔ چنانچہ بعض افراد کے معاملے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے صرف قیافہ شناسی ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ ٹھوس شواہد بھی درکار ہوتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment