Saturday, April 28, 2012

شبنم کی پاکستان واپسی 


 
داکارہ شبنم اور ان کے موسیقار شوہر روبن گھوش آج کل پاکستان میں ہیں، دونوں گزشتہ ہفتے یہاں پہنچنے اور ائرپورٹ پر چند ابتدائی بیانات دینے کے بعد یہ میاں بیوی کسی پُر اسرار فلم کے مرکزی کرداروں کی طرح غائب ہو گئے۔
پہلے پتہ چلا کہ یہ دونوں زیبا بیگم کے گھر مقیم ہیں اور چونکہ وہاں یہ مرحوم محمد علی کا افسوس کرنے کے لیے آئے ہیں اس لیے میڈیا سے گفتگو نہیں کریں گے۔
پھر خبر آئی کہ شبنم اور روبن گھوش حکومتِ پاکستان کے مہمان ہیں اور صرف سرکاری میڈیا سے بات کریں گے۔
آخری اطلاع یہ ہے کہ وہ دونوں پاکستان ٹیلی ویژن کی دعوت پر لاہور آئے ہیں جہاں انھیں پی ٹی وی کے ایک شو میں خصوصی شرکت کرنی ہے۔
انیس سو اٹھانوے کے بعد دونوں کو پاکستان میں نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی کبھی ان کا ذکر ہوا۔ گویا ہماری اٹھارہ بیس برس والی نسل کےنوجوانوں کو ان دونوں کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہونی چاہیئے، لیکن عملاً ایسا نہیں ہے، ہماری نئی نسل شبنم کے نام سے خوب واقف ہے۔ دعا دیجیئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو جس کی بدولت گھر بیٹھے پرانی فلمیں دیکھنا بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔
شبنم نے ندیم، محمد علی، کمال اور وحید مراد سمیت پاکستان کے ہر ہیرو کے ساتھ کام کیا
سوشل میڈیا پر معلومات کا تبادلہ آپ کو ہر نئی بات سے باخبر رکھتا ہے اور کسی اِمیج کو دوسروں تک منتقل کرنے کی نئی سہولتوں نے گویا نوجوانوں کا ہر کام آسان کر دیا ہے
۔
امی جان تو نوجوانی میں شبنم اور ندیم کی فلمیں دیکھنے کے لیے ٹانگے، ٹیکسی یا اپنی کار میں بیٹھ کر میلوں دور کسی سینما گھر میں جایا کرتی تھیں، لیکن بیٹی کو یہ ساری زحمت نہیں کرنی پڑتی کیونکہ اب سنیما خود چل کر اس کے پاس آگیا ہے۔
شبنم کا جنم مشرقی بنگال کے ایک بودھ خاندان میں 1944 میں ہوا۔ اُن کا پیدائشی نام جھرنا تھا اور ان کی شہرت کا آغاز سترہ برس کی عمر میں اس وقت ہو گیا تھا جب انھوں نے ڈھاکہ میں بننے والی بنگالی فلم ’ہرانو دن‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
سن ساٹھ کی دہائی میں مشرقی پاکستان کا دارالحکومت ڈھاکہ اردو فلم سازی کا بہت بڑا مرکز بن کر ابھرا تھا اور جن لوگوں نے اس کام کی ابتداء کی اُن میں ڈائریکٹر احتشام پیش پیش تھے۔
1960 میں انھوں نے اپنی اردو فلم ’چندا‘ میں اٹھارہ سالہ جھرنا کو کاسٹ کیا لیکن اس کا نام بدل کر شبنم رکھ دیا۔
فلم چندا کی زبردست کامیابی نے شبنم کے لئے نئی راہیں کھول دیں اور اگلے ہی برس ان کی فلم تلاش ریلیز ہوگئی جسے احتشام کے بھائی مستفیض نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس کے بعد تو سمجھیئے کہ کامیاب فلموں کی لائن لگ گئی: ساگر، کاجل، آخری سٹیشن، درشن، کاروان۔۔۔ یہ فلمیں اگرچہ مشرقی پاکستان میں بنی تھیں لیکن ان کی اصل مارکیٹ مغربی پاکستان تھی۔
چنانچہ فلم درشن میں کام کرنے کے بعد شبنم اور ان کے موسیقار شوہر روبن گھوش 1967 میں مغربی پاکستان منتقل ہو گئے جہاں شبنم کو آتے ہی کئی فلمیں مِل گئیں جن میں سب سے پہلے فلم سمندر ریلیز ہوئی جس میں ان کے مقابل وحید مراد نے کام کیا تھا۔ اگلے برس یعنی 1968 میں شریکِ حیات، تم میرے ہو، میں زندہ ہوں اور جہاں تم وہاں ہم بھی ریلیز ہوئیں جن میں شبنم بالترتیب کمال، ندیم، سدھیر اور وحید مراد کے ساتھ نمودار ہوئیں۔
اگلے تین برس میں انھوں نے عندلیب اور لاڈلا سمیت پندرہ فلموں میں کام کیا اور 1971 میں اُن کی وہ فلم سامنے آئی جس نے کامیابی کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے یعنی فلم دوستی! اس رنگین فلم کی بہت سی شوٹنگ لندن میں ہوئی تھی کیونکہ کہانی کے مطابق شبنم سے شادی کرنے کے خواہش مند نوجوان اعجاز کو بے کاری کا طعنہ دیا جاتا ہے اور وہ جوش میں آکر کمائی کرنے کے لئے ولایت جانے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ البتہ لندن پہچ کر وہاں طرح طرح کے مصائب کا شکار ہو جاتا ہے۔
دوستی جیسی کامیاب کمرشل فلم کے بعد شبنم نے دو ایسی فلموں میں کام کیا جو باکس آفس پر تو زیادہ کامیاب نہ ہوئیں لیکن جنھوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی اور کئی فلمی میلوں میں انعامات حاصل کئے۔ یہ فلمیں تھیں بندگی اور احساس۔ شبنم کو 1974 میں ابنِ صفی کے ناول پہ بننے والی واحد فلم دھماکہ میں کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
بنگلہ دیش کی علیحدگی پر شبنم اور روبن گھوش نے پاکستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی تھی لیکن سنہ 1988 کے بعد انھوں نے ڈھاکہ آناجانا شروع کردیا اور بنگالی فلموں میں کریکٹر رول بھی کرنے لگیں۔
جب پاکستان میں اردو فلموں کا زوال ایک حقیقت بن گیا تو شبنم اور اُن کے شوہر نے بنگلہ دیش منتقل ہونے کی ٹھانی۔ 1997 میں شبنم نے اپنی آخری اردو فلم ’اولاد کی قسم‘ میں کام کیا جس کے بعد وہ ڈھاکہ منتقل ہوگئیں اور وہاں بنگالی فلموں میں کام جاری رکھا۔
وہ پاک و ہند کی واحد اداکارہ ہیں جنھوں نے مسلسل تیس برس تک فلموں میں ہیروئن کا رول ادا کیا۔ اپنے چالیس سالہ فلمی کیرئر میں انہوں نے 200 کے قریب فلموں میں کام کیا۔ انھیں تیرہ مرتبہ نگار ایوارڈ اور تین مرتبہ نیشنل ایوارڈ مل چکا ہے۔

No comments:

Post a Comment