2011 پاکستانی صحافیوں کے لیے مہلک سال
فوٹو AP
صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2011ء میں پاکستان مسلسل دوسرے برس بھی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لیے مہلک ترین ملک ثابت ہوا ہے۔
جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن یا سیفما کے سیکرٹری جنرل امیتاز عالم کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے باعث رواں سال پاکستان میں صحافیوں کو اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں مشکلات کا سامنا رہا اور زیادہ تر صحافیوں کی ہلاکتیں صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہوئیں۔
’’(2011ء) میں 12 صحافی پاکستان میں مارے گئے ہیں، ان میں سے آٹھ ایسے ہیں جنہیں ہدف بنا کر قتل گیا یعنی پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے طے شدہ منصوبے کے تحت ان کو مارا گیا۔‘‘
پاکستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سلیم شہزاد بھی شامل ہیں جو 29 مئی کو ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے اسلام آباد سے لاپتہ ہوگئے تھے جس کے دو روز بعد ان کی تشدد زدہ لاش پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین کے نواح میں ایک نہر سے ملی تھی۔
صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی تنظمیوں نے سلیم شہزاد کے قتل کی شدید مذمت کی تھی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔
اس احتجاجی مظاہرے کے بعد سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا تھا جسے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ سلیم شہزاد کے قتل کے محرکات کی تحقیقات کر کے اس واقعہ کے ذمہ داران کی نشاندہی کرے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات تجویز کرے۔ لیکن 2011ء کے اختتام تک اس کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔
سیفما کے جنرل سیکرٹری امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ 2011ء میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافیوں میں سے کسی کے بھی قتل میں ملوث ملزم گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔ نیویارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں بالعموم صحافیوں کے قاتل سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
لیکن وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مارے جانے والے تمام صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور موجودہ حکومت نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات بھی کیے ہیں۔
رحمٰن ملک نے کہا ’’زیادہ تر صحافیوں کی ہلاکت پہلے خبر کے حصول کی کوشش میں ہوئی۔‘‘ اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں فرائض کی انجام دہی کے لیے جانے والے صحافیوں کو ضروری احتیاطی تدابیر اخیتار کرنے چاہئیں۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس پی ایف یو جے کے صدر پرویز شوکت کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے مقامی صحافیوں کو شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران احتیاطی تدابیر کے بارے میں تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔
جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن یا سیفما کے سیکرٹری جنرل امیتاز عالم کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے باعث رواں سال پاکستان میں صحافیوں کو اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں مشکلات کا سامنا رہا اور زیادہ تر صحافیوں کی ہلاکتیں صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہوئیں۔
’’(2011ء) میں 12 صحافی پاکستان میں مارے گئے ہیں، ان میں سے آٹھ ایسے ہیں جنہیں ہدف بنا کر قتل گیا یعنی پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے طے شدہ منصوبے کے تحت ان کو مارا گیا۔‘‘
پاکستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سلیم شہزاد بھی شامل ہیں جو 29 مئی کو ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے اسلام آباد سے لاپتہ ہوگئے تھے جس کے دو روز بعد ان کی تشدد زدہ لاش پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین کے نواح میں ایک نہر سے ملی تھی۔
صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی تنظمیوں نے سلیم شہزاد کے قتل کی شدید مذمت کی تھی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔
اس احتجاجی مظاہرے کے بعد سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا تھا جسے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ سلیم شہزاد کے قتل کے محرکات کی تحقیقات کر کے اس واقعہ کے ذمہ داران کی نشاندہی کرے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات تجویز کرے۔ لیکن 2011ء کے اختتام تک اس کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔
سیفما کے جنرل سیکرٹری امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ 2011ء میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافیوں میں سے کسی کے بھی قتل میں ملوث ملزم گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔ نیویارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں بالعموم صحافیوں کے قاتل سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
لیکن وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مارے جانے والے تمام صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور موجودہ حکومت نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات بھی کیے ہیں۔
رحمٰن ملک نے کہا ’’زیادہ تر صحافیوں کی ہلاکت پہلے خبر کے حصول کی کوشش میں ہوئی۔‘‘ اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں فرائض کی انجام دہی کے لیے جانے والے صحافیوں کو ضروری احتیاطی تدابیر اخیتار کرنے چاہئیں۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس پی ایف یو جے کے صدر پرویز شوکت کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے مقامی صحافیوں کو شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران احتیاطی تدابیر کے بارے میں تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment