Saturday, January 28, 2012

sourse; voa


   سائنس اورتیکنالوجی: سوچوسو ہوجائے!

  کا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں ذہن کے ساتھ مشینوں کو کنٹرول کیا جائے گاibm

فوٹو ASSOCIATED PRESS
آئی بی ایم کی انٹرنیشنل بزنس مشین

ماہرین کہتے ہیں کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگوں کے پاس ایسا طریقہٴ کار ہوگا کہ کسی کو کال کرنے یا اِی میل کرنےکے بارے میں محض سوچتے ہوئے اِسےممکن بنایا جاسکے گا!
اپنے ذہن کے ذریعے کسی مشین کو کنٹرول کرنا اپنی ہی سرگرمیوں کی توانائی سے اپنے گھر میں پاور جنریٹ کرسکنا؟ یہ دو ایسی پیش رفت ہیں جِن کے بارے میں IBMکے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آئندہ پانچ برسوں میں حقیقت کا روپ دھار لیں گی۔
تیکنالوجی کمپنی IBMنے اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے جِس کے مطابق، ماہرین کا خیال ہے کہ جلد ہی لوگ محض اپنے ذہن استعمال کرتے ہوئے بیشتر الیکٹرک ڈوائسز کو کنٹرول کرسکیں گے۔
IBMاور دوسرے اداروں کے سائنس داں اِس کے لیے مختلف طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں اور سائنسی زبان میں اِس کے لیے ’بایو انفرمیٹکس‘ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگوں کے پاس ایسا طریقہٴ کار ہوگا کہ کسی کو کال کرنے یا اِی میل کرنےکے بارے میں محض سوچتے ہوئے اِسے ممکن بنایا جاسکے گا!
برنی میرسن IBMمیں اختراع اور جدت کے شعبے کے نائب صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سادہ سی صلاحیت ہے جِس میں ایک سسٹم کو کچھ کرنے کے لیے کمانڈ دی جاتی ہے۔ کچھ کہنا یا کرنا نہیں پڑتا۔ اور یوں، ایک درست نتیجہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ حقیقتاً ایک بھرپور صلاحیت ہے جسے کوئی مفلوج یا اپاہج شخص اپنی دماغی لہروں یعنی ’برین ویوز‘ کی مدد سے کاموں کے ہونے کوممکن بنا سکے گا۔ اور یوں، آزادانہ طور پر بغیر کسی مدد کے اپنی زندگیاں بہتر انداز میں گزار سکے گا۔
ایک اور پیش گوئی ایک ایسے طریقے کے بارے میں ہے جِس سے لوگ چلنے یا دوڑنے جیسی اپنی سرگرمیوں کی توانائی سے اپنے گھروں یا دفتروں کے لیے بجلی یعنی پاور حاصل کر سکتے ہیں۔برنی کہتے ہیں کہ اِسے ’مائکرو الیکٹرانک جنریشن‘ کا نام یا اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔
وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیسری دنیا میں کسی شخص کے پاس ٹیلی فون تو ہے، لیکن اُس کی رسائی پاور گرڈ تک نہیں۔ جو، کافی عام سی بات ہے۔ لیکن، سچ مچ ایک جوتے کے اندر ایک ایسی چیز بنائی جاسکتی ہے جو چلنے کے عمل کے دوران اتنی توانائی کا پتا دیتی ہے جِس سے ایک بیٹری کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ اور اِس شخص کو باقی دنیا سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور پیش گوئی کے مطابق ہمارے ’پاس ورڈس‘ بہت جلد قصہٴ پارینہ ہونے والے ہیں۔IBMکا کہنا ہے کہ ’بایومیٹرکس تیکنالوجی‘ میں ہونے والی پیش رفت سے پاس ورڈس غیر ضروری ہوجائیں گے۔
انتہائی عام ’بایو میٹرکس‘ میں سے انسانوں کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں فنگر پنٹس، چہرہ اور آواز کی پہچان اور پُتلی کی اسکیننگ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ تیکنالوجی جلد ہی رقم حاصل کرنے والی مشینوں یعنی ATMمشینوں اور دوسری چیزوں کے لیے استعمال ہونے لگے گی۔

Sunday, January 1, 2012

source:voa

2011 پاکستانی صحافیوں کے لیے مہلک سال


فوٹو AP
صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2011ء میں پاکستان مسلسل دوسرے برس بھی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لیے مہلک ترین ملک ثابت ہوا ہے۔

جنوبی ایشیا کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن یا سیفما کے سیکرٹری جنرل امیتاز عالم کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے باعث رواں سال پاکستان میں صحافیوں کو اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں مشکلات کا سامنا رہا اور زیادہ تر صحافیوں کی ہلاکتیں صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہوئیں۔
’’(2011ء) میں 12 صحافی پاکستان میں مارے گئے ہیں، ان میں سے آٹھ ایسے ہیں جنہیں ہدف بنا کر قتل گیا یعنی پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے طے شدہ منصوبے کے تحت ان کو مارا گیا۔‘‘
پاکستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سلیم شہزاد بھی شامل ہیں جو 29 مئی کو ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے اسلام آباد سے لاپتہ ہوگئے تھے جس کے دو روز بعد ان کی تشدد زدہ لاش پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین کے نواح میں ایک نہر سے ملی تھی۔
صحافیوں کی مقامی اور بین الاقوامی تنظمیوں نے سلیم شہزاد کے قتل کی شدید مذمت کی تھی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔
اس احتجاجی مظاہرے کے بعد سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا تھا جسے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ سلیم شہزاد کے قتل کے محرکات کی تحقیقات کر کے اس واقعہ کے ذمہ داران کی نشاندہی کرے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات تجویز کرے۔ لیکن 2011ء کے اختتام تک اس کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔
سیفما کے جنرل سیکرٹری امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ 2011ء میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافیوں میں سے کسی کے بھی قتل میں ملوث ملزم گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔  نیویارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں بالعموم صحافیوں کے قاتل سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
لیکن وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مارے جانے والے تمام صحافیوں کے قتل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور موجودہ حکومت نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات بھی کیے ہیں۔
رحمٰن ملک نے کہا ’’زیادہ تر صحافیوں کی ہلاکت پہلے خبر کے حصول کی کوشش میں ہوئی۔‘‘ اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں فرائض کی انجام دہی کے لیے جانے والے صحافیوں کو ضروری احتیاطی تدابیر اخیتار کرنے چاہئیں۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس پی ایف یو جے کے صدر پرویز شوکت کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی ماہرین کے ذریعے مقامی صحافیوں کو شدت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران احتیاطی تدابیر کے بارے میں تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔