سائنس اورتیکنالوجی: سوچوسو ہوجائے!
کا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں ذہن کے ساتھ مشینوں کو کنٹرول کیا جائے گاibm
فوٹو ASSOCIATED PRESS
ماہرین کہتے ہیں کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگوں کے پاس ایسا طریقہٴ کار ہوگا کہ کسی کو کال کرنے یا اِی میل کرنےکے بارے میں محض سوچتے ہوئے اِسےممکن بنایا جاسکے گا!
اپنے ذہن کے ذریعے کسی مشین کو کنٹرول کرنا اپنی ہی سرگرمیوں کی توانائی سے اپنے گھر میں پاور جنریٹ کرسکنا؟ یہ دو ایسی پیش رفت ہیں جِن کے بارے میں IBMکے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آئندہ پانچ برسوں میں حقیقت کا روپ دھار لیں گی۔
تیکنالوجی کمپنی IBMنے اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے جِس کے مطابق، ماہرین کا خیال ہے کہ جلد ہی لوگ محض اپنے ذہن استعمال کرتے ہوئے بیشتر الیکٹرک ڈوائسز کو کنٹرول کرسکیں گے۔
IBMاور دوسرے اداروں کے سائنس داں اِس کے لیے مختلف طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں اور سائنسی زبان میں اِس کے لیے ’بایو انفرمیٹکس‘ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگوں کے پاس ایسا طریقہٴ کار ہوگا کہ کسی کو کال کرنے یا اِی میل کرنےکے بارے میں محض سوچتے ہوئے اِسے ممکن بنایا جاسکے گا!
برنی میرسن IBMمیں اختراع اور جدت کے شعبے کے نائب صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سادہ سی صلاحیت ہے جِس میں ایک سسٹم کو کچھ کرنے کے لیے کمانڈ دی جاتی ہے۔ کچھ کہنا یا کرنا نہیں پڑتا۔ اور یوں، ایک درست نتیجہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ حقیقتاً ایک بھرپور صلاحیت ہے جسے کوئی مفلوج یا اپاہج شخص اپنی دماغی لہروں یعنی ’برین ویوز‘ کی مدد سے کاموں کے ہونے کوممکن بنا سکے گا۔ اور یوں، آزادانہ طور پر بغیر کسی مدد کے اپنی زندگیاں بہتر انداز میں گزار سکے گا۔
ایک اور پیش گوئی ایک ایسے طریقے کے بارے میں ہے جِس سے لوگ چلنے یا دوڑنے جیسی اپنی سرگرمیوں کی توانائی سے اپنے گھروں یا دفتروں کے لیے بجلی یعنی پاور حاصل کر سکتے ہیں۔برنی کہتے ہیں کہ اِسے ’مائکرو الیکٹرانک جنریشن‘ کا نام یا اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔
وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیسری دنیا میں کسی شخص کے پاس ٹیلی فون تو ہے، لیکن اُس کی رسائی پاور گرڈ تک نہیں۔ جو، کافی عام سی بات ہے۔ لیکن، سچ مچ ایک جوتے کے اندر ایک ایسی چیز بنائی جاسکتی ہے جو چلنے کے عمل کے دوران اتنی توانائی کا پتا دیتی ہے جِس سے ایک بیٹری کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ اور اِس شخص کو باقی دنیا سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور پیش گوئی کے مطابق ہمارے ’پاس ورڈس‘ بہت جلد قصہٴ پارینہ ہونے والے ہیں۔IBMکا کہنا ہے کہ ’بایومیٹرکس تیکنالوجی‘ میں ہونے والی پیش رفت سے پاس ورڈس غیر ضروری ہوجائیں گے۔
انتہائی عام ’بایو میٹرکس‘ میں سے انسانوں کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں فنگر پنٹس، چہرہ اور آواز کی پہچان اور پُتلی کی اسکیننگ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ تیکنالوجی جلد ہی رقم حاصل کرنے والی مشینوں یعنی ATMمشینوں اور دوسری چیزوں کے لیے استعمال ہونے لگے گی۔
تیکنالوجی کمپنی IBMنے اپنی تازہ ترین رپورٹ جاری کی ہے جِس کے مطابق، ماہرین کا خیال ہے کہ جلد ہی لوگ محض اپنے ذہن استعمال کرتے ہوئے بیشتر الیکٹرک ڈوائسز کو کنٹرول کرسکیں گے۔
IBMاور دوسرے اداروں کے سائنس داں اِس کے لیے مختلف طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں اور سائنسی زبان میں اِس کے لیے ’بایو انفرمیٹکس‘ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگوں کے پاس ایسا طریقہٴ کار ہوگا کہ کسی کو کال کرنے یا اِی میل کرنےکے بارے میں محض سوچتے ہوئے اِسے ممکن بنایا جاسکے گا!
برنی میرسن IBMمیں اختراع اور جدت کے شعبے کے نائب صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سادہ سی صلاحیت ہے جِس میں ایک سسٹم کو کچھ کرنے کے لیے کمانڈ دی جاتی ہے۔ کچھ کہنا یا کرنا نہیں پڑتا۔ اور یوں، ایک درست نتیجہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ حقیقتاً ایک بھرپور صلاحیت ہے جسے کوئی مفلوج یا اپاہج شخص اپنی دماغی لہروں یعنی ’برین ویوز‘ کی مدد سے کاموں کے ہونے کوممکن بنا سکے گا۔ اور یوں، آزادانہ طور پر بغیر کسی مدد کے اپنی زندگیاں بہتر انداز میں گزار سکے گا۔
ایک اور پیش گوئی ایک ایسے طریقے کے بارے میں ہے جِس سے لوگ چلنے یا دوڑنے جیسی اپنی سرگرمیوں کی توانائی سے اپنے گھروں یا دفتروں کے لیے بجلی یعنی پاور حاصل کر سکتے ہیں۔برنی کہتے ہیں کہ اِسے ’مائکرو الیکٹرانک جنریشن‘ کا نام یا اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔
وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیسری دنیا میں کسی شخص کے پاس ٹیلی فون تو ہے، لیکن اُس کی رسائی پاور گرڈ تک نہیں۔ جو، کافی عام سی بات ہے۔ لیکن، سچ مچ ایک جوتے کے اندر ایک ایسی چیز بنائی جاسکتی ہے جو چلنے کے عمل کے دوران اتنی توانائی کا پتا دیتی ہے جِس سے ایک بیٹری کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ اور اِس شخص کو باقی دنیا سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور پیش گوئی کے مطابق ہمارے ’پاس ورڈس‘ بہت جلد قصہٴ پارینہ ہونے والے ہیں۔IBMکا کہنا ہے کہ ’بایومیٹرکس تیکنالوجی‘ میں ہونے والی پیش رفت سے پاس ورڈس غیر ضروری ہوجائیں گے۔
انتہائی عام ’بایو میٹرکس‘ میں سے انسانوں کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں فنگر پنٹس، چہرہ اور آواز کی پہچان اور پُتلی کی اسکیننگ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ تیکنالوجی جلد ہی رقم حاصل کرنے والی مشینوں یعنی ATMمشینوں اور دوسری چیزوں کے لیے استعمال ہونے لگے گی۔
No comments:
Post a Comment