Saturday, June 16, 2012

sourc voa


بجلی کہاں گئی ؟
ان دنوں بجلی گرڈ سٹیشنوں اور تاروں میں نہیں ہے، لوگوں کے جذبات میں ہے۔ جب پنکھے نہیں چلتے اور بلب نہیں جلتے تو وہ سڑکوں پر آ ٹائر جلانے لگتے ہیں۔مگر ٹائر جلنے سے دھواں پیدا ہوتا ہے بجلی نہیں ۔

More Sharing Services
بجلی کہاں گئی؟ اس چھوٹے سے سیدھے سادھے سوال کے درجنوں ٹیڑھے اور الجھے ہوئے  جواب دیے جاتے ہیں اور اکثر جواب ایسے ہوتے ہیں کہ سننے والا چلچلاتی دھوپ میں سڑکوں پرجاکر نعرے لگانے لگتاہے۔
بجلی کہیں نہیں گئی۔ وہ  اب بھی اس کی اتنی مقدار میں  موجود ہے کہ ملک کی  ساری ضروریات  پوری کی جاسکتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی گنجائش 20 ہزار میگاواٹ سے زیادہ اور طلب 17 ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے۔مگر چونکہ  مانگ کے مطابق بجلی پیدا نہیں کی جارہی اس لیے ملک کے کئی حصوں میں اٹھارہ سے بیس گھنٹوں تک اس کی فراہمی بند رہتی ہے۔
پاکستان میں بجلی حاصل کرنے کے تین اہم ذریعے ہیں، پانی، تیل اور گیس اور جوہری توانائی۔ اگر  پن بجلی گھر اپنی پوری استعطاعت پر کام کریں تو چھ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی حاصل ہوسکتی ہے لیکن پانی کی کمی، اور فنی خرابیوں کے باعث اس کی  پیداوار آدھی سے بھی کم ہے ۔ جس سے تھرمل بجلی گھروں پر دباؤ مسلسل بڑھ رہاہےاور کل پیداوار میں اس کا حصہ  کئی بار70  فی صد تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنا انتہائی مہنگا پڑرہاہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنا اور روپے کی قدر مسلسل کم ہونا۔ ایک اندازے کے مطابق ان دنوں تیل سےپیدا کی جانے والی بجلی کے ایک یونٹ پر 20 روپے کے لگ بھگ خرچ آرہاہے ۔  جب کہ اس کو بیچا جاتا ہے کہیں کم قیمت پر۔ اور یہ فرق چکانا پڑتا ہے حکومت کو سرکاری خزانے سے۔
ماہرین کا کہناہے کہ بجلی کی کل ضرورت کا ایک تہائی سے زیادہ تھرمل پاور پر انحصار معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتاہے۔ اسی لیے ترقی یافتہ ملک پیداواری لاگت میں کمی کی خاطر پانی، کوئلہ ، گیس ،تیل ، نیوکلیئر اور متبادل ذرائع  سے ملاجلا کر بجلی پیدا کرتے ہیں اور تھرمل پاور پر زیادہ دباؤ نہیں پڑنے دیتے۔ جب کہ پاکستان میں صورت حال اس کے الٹ ہے۔
مشرف حکومت نے اپنے آخری سال میں بعض دوسرے اخراجات کے لیے پرائیویٹ اور سرکاری تھرمل پاور یونٹوں کو سرمائے کی فراہمی روک دی تھی۔ موجودہ دور میں بھی انہیں پوری ادائیگیاں نہیں کی جارہیں جس ے میڈیا  رپورٹس یہ   بقایاجات  چارسو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ جب پیسے نہیں ملتے تو آئل کمپنیاں  تیل اورپرائیویٹ بجلی گھر اپنے جنریٹر بند کردیتے ہیں۔
پانی سے بجلی کوڑیوں کے مول پڑتی ہے۔ مگر مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان میں آبی منصوبوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔  کالا باغ کے علاوہ بھی ایسے کئی  علاقوں کی نشاندہی ہوچکی ہے جہاں سےپن بجلی حاصل کی جاسکتی  ہے ۔ اسی طرح پنجاب میں،  جہاں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے، چھوٹےپیمانے اور مقامی سطح پر بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔معاشی ترقی اور سستی بجلی کےلیے آبی وسائل کے استعمال پر اعتماد سازی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
  کوئلے سے بجلی کا حصول بھی نسبتاً سستا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اگرچہ کوئلہ معیاری نہیں ہے لیکن  پاکستانی سائنس دانوں نے اسے براہ راست گیس میں بدل کر بجلی بنانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔اس منصوبے کی حمایت اور مخالفت کے باوجود مستقبل میں اس قدرتی ذخیرے سے بڑے پیمانے پر بجلی حاصل ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
پاکستان میں کئی تھرمل یونٹ قدرتی گیس سے چلائے جارہے ہیں مگر گیس پر مختلف شعبوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ اور طویل عرصے سے نئے ذخائر کی تلاش پر سنجیدگی سے توجہ نہ دینے کے باعث  گیس کا بھی بحران پیدا ہوچکاہے۔ ان دنوں بیرونی ممالک سے گیس کی درآمد کے منصوبوں پر زیادہ دھیان دیا جارہاہے، لیکن سستی بجلی کے لیے مقامی وسائل کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔
جوہری بجلی بھی تھرمل  پاور سے سستی ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت دوجوہری بجلی گھر ہیں جن سے کل ملکی پیداوار کا  محض دو فی  صد حاصل ہورہاہے۔حکومت 2030ء تک  ساڑھے آٹھ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی جوہری پلانٹس سے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن دوسری جانب دنیا بھر  جوہری بجلی گھروں کی تنصیب پر مسلسل بڑھتے ہوئے تحفظات ان منصوبوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے طویل ساحلی اور صحرائی علاقوں میں ہوائی چکی(ونڈ ملز)  لگانے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ اسی طرح ملک کے میدانی علاقوں میں سارا سال سورج چمکتا ہےجس سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔    توانائی کے یہ متبادل ذرائع چھوٹے پیمانے پر دیہاتوں اور قصبوں کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردا ر ادا کرسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کم ازکم پانچ ہزار دیہاتوں کو ہزاروں میل لمبی تاریں بچھائے بغیر  ونڈملز کے ذریعے مقامی طور پرسستی بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالتے ہی بجلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کرائے کے بجلی گھر وں کا منصوبہ شروع کیاتھا۔ لیکن کئی حلقوں نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیل سے چلنے والے پرانے جنریٹر اس مسئلے کی سنگینی میں  مزید اضافہ کریں گے،  کیونکہ تھرمل پاور یونٹ تیل کی کمی کے باعث ہی اپنی استعداد کے مطابق نہیں چل رہے۔جب کہ  اصل مسئلہ بجلی کی کمی کا نہیں بلکہ بجلی گھروں سے پوری پیدوار لینے میں ناکامی کا ہے۔
پاکستان میں بجلی کے مسئلے سے منسلک ایک اہم پہلو بڑے پیمانے پر بجلی کی چوری اور اس کی ترسیل میں خرابیاں ہیں  جس کے سبب محتاط اندازوں کے مطابق 30 فی صدسے زیادہ بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔ ان پر قابو پانے سے نہ صرف پیداواری اخراجات کم ہوں گے بلکہ  مزید مالی وسائل بھی مہیا ہوسکیں گے۔
اصل مسئلہ بجلی کا نہیں ہے بلکہ تیل کمپنیوں اور پرائیویٹ بجلی گھروں کے اربوں روپے کے بقایاجات کاہے ۔ لیکن یہ ادائیگیاں بھی  مسئلے کا مستقل حل نہیں ہیں کیونکہ دنیا کا کوئی بھی ملک مہنگی تھرمل بجلی پر انحصار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Friday, June 8, 2012

ثانیہ سعید کی اداکاری سے سجا نیا ڈرامہ سیریل ’ زرد موسم



ثانیہ سعید پاکستان ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں کا ایک منجھا ہوا نام ہے جبکہ ڈرامہ سیریل ”ستارہ اور مہرالنساء “اور ”نجات“ سے انہوں نے بطور اداکارہ پاکستان کے ہر گھر اور تقریباًہر فرد کے دل میں اپنی پہچان بنائی۔
یہ ان دنوں کے ڈرامے ہیں جبکہ پی ٹی وی عروج پر تھا اور’ ایس ٹی این‘ اور’ این ٹی ایم‘ بطور پرائیوئٹ چینل نیا نیا متعارف ہوا تھا۔ سچ پوچھئے تو ثانیہ سعید کی اداکاری سے سجے یہ دونوں ڈرامے ٹی وی چینلز کی شہرت میں چار چاند لگاگئے تھے۔
اب یہی ثانیہ سعید آپ کو نئی ڈرامہ سیریل” زرد موسم“ میں نظر آئیں گی۔جو سات جون سے ہرجمعرات کو ” ہم ٹی وی“ سے پیش کیاجارہا ہے۔

’شہد کی مکھیوں کا خاتمہ ہو رہا ہے‘ 


شہد کی مکھی
حوائی میں ابھی بھی بہت سے جزائر ایسے ہیں جہاں شہد کی مکھیاں ان سے بچی ہوئی ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ خون چوسنے والے ایک مائٹ (کیڑے) کی مدد سے ایک وائرس نے اس دنیا سے اربوں شہد کی مکھیوں کو ختم کردیا ہے۔
ہوائی میں سائنسدانوں کی جانب سے کیے گئے تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ ویورا نامی کیڑے نے وائرس پھیلایا جس سے شہد کی مکھیوں کے پر تباہ ہوگئے۔ یہ وائرس بعد میں شہد کی مکھیوں کے خون میں پھیلا اور اس کا اثر سیدھے ان کے دماغ پر ہوا جس سے مکھیاں مرنے لگیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے ’یہ دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کو تباہ کرنے والے سب سے خطرناک وائرس میں سے ایک ہے۔‘ یہ تحقیق ایک جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے۔
شفیلڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر سٹیفن مارٹن کی قیادت میں ہوئی اس تحقیق میں محقیقین نے حوائی میں شہد کی مکھیوں کی اموات کی تفتیش کی جس سے معلوم ہوا کہ ویورا نامی وائرس کیلیفورنیا سے پانچ برس پہلے یہاں پہنچا۔

زمین سے زہرہ کا نایاب نظارہ  


زمین کے باسیوں نے نظامِ شمسی کے سیارے زہرہ کا ایک ایسا نایاب نظارہ دیکھا ہے جو دوبارہ ایک سو پانچ برس بعد دیکھنے کو ملے گا۔
اس عمل کے دوران زہرہ سورج اور زمین کے درمیان سے گزرا اور سورج کے سامنے سے گزرتے ہوئے اسے یہ ایک چھوٹی سی کالی گول ٹکیا کی مانند دکھائی دے رہا تھ

سب سے پتلا اور لچکدار شیشہ تیار


کمپنی نے موبائل فونز کی کمپنیوں کو یہ شیشہ فراہم کرنا شروع کردیا ہے
ایک امریکی کمپنی نے سب سے پتلا اور لچکدار شیشہ تیار کیا ہے جو کسی آلے کے گرد لپیٹا جاسکتا ہے۔
نیویارک کی کورننگ نامی کمپنی نے اس شیشے کو ’ولو گلاس‘ کا نام دیا ہے۔
کمپنی کے مطابق اس شیشے کو موبائل کی سکرین پر استعمال کیا جاسکتا کیونکہ موبائل فونز پتلے ہوتے جا رہے ہیں۔
اس پراجیکٹ کے ڈائریکٹر دیپک چوہدری کا کہنا ہے ’آج کل یہ اہم مسئلہ ہے کہ چھوٹی اور بڑی اشیاء کی سکرین کس طرح پتلی سے پتلی ہونے چاہیے۔

Sunday, June 3, 2012

اپنے آپ چلنے والی گاڑیاں، تجربہ کامیاب

گاڑیوں کی رفتار پچاسی کلومیٹر فی گھنٹا تھی جبکہ ان کے درمیان فاضلہ چھ میٹر تک کا تھا۔
سپین میں اپنے آپ چلنے والی گاڑیوں کے ایک کارواں نے ہسپانی موٹروے پر دو سو کلومیٹر کا سفر طے کر لیا ہے۔
اپنی نوعیت کے اس پہلے تجربے میں ڈرائیوروں کے بغیر چلنے والی ان گاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بےتار رابطہ قائم کیا گیا ہے اور تمام گاڑیوں نے سب سے آگے چلنے والی گاڑی کی نقل کی جسے ایک ڈرائیور چلا رہا تھا۔
روڈ ٹرین کہلانے والے گاڑیوں کے اس کارواں کو گاڑیاں بنانے والی کمپنی ’والوو‘ نے تیار کیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس طرح کی روڈ ٹرینیں مستقبل میں دستیاب ہوں گی اور ان کا مقصد آرام دے ڈرائیونگ کو متعارف کرانا ہے۔
والوو کےمطابق اب ڈرائیور گاڑی چلاتے چلاتے ’اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر سکتے ہیں، کتاب پڑھ سکتے ہیں یا پھر آرام سے پیچھے بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔‘
روڈ ٹرین کا تجربہ یورپی کمیشن کی ایک ریسرچ کا نتیجہ ہے اور ہسپانی موٹروے پر سفر طے کرنے والے کارواں میں تین گاڑیاں اور ایک لاری شامل ہے۔
ان تمام گاڑیوں کی رفتار پچاسی کلومیٹر فی گھنٹا تھی جبکہ ان کے درمیان فاصلہ چھ میٹر تک کا تھا۔
اس پراجیکٹ کی مینیجر لنڈا واہلسٹروم نے بتایا ’ہم نے ایک دن میں دو سو کلومیٹر طے کیے اور یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ ہم بے حد خوش ہیں۔‘