قصہ’ شاہی ہندی‘ کا۔۔۔ اردو زبان کے نامور مستشرق ڈیوڈ میتھیوز کی زبانی
’میں دہلی کے ایک ریستوران میں گیا اور وہاں بیرے سے بات کرنا شروع کی۔ اُسے بڑی حیرت ہوئی اور اُس نے پوچھا کہ آپ نے ہندی کہاں سے سیکھی ؟ میں نےکہا کہ میں تو دلٍی کا پرانا پاپی ہوں ۔ ممکن ہے کہ دوران گفتگو میں نے فارسی اور عربی کے الفاظ بھی استعمال کیے ہوں ۔ خیر، اُس نے میری باتیں سن کر کہا کہ آپ تو بہت شاہی ہندی بولتے ہیں، جِس کا در اصل مطلب اردو تھا‘
پروفیسر ڈیوڈ میتھیوز نے ’لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز‘ میں چالیس برس تک اردو پڑھائی ہے۔ چند برس قبل وہ ملازمت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
پچھلے برس، وہ ’پانچویں بین الاقوامی اردو کانفرنس‘ میں شرکت کےلیے نیو یارک آئے۔ وہاں اُن سے عائشہ تنظیم نے اردو کے ساتھ وابستگی کی کہانی پوچھی تو میتھیوز صاحب نے بڑے دل چسپ انداز میں اِس حادثاتی تعلق کا ذکر کیا۔
دورانِ گفتگو، اُنھوں نےاردو ادب اور زبان کےبارے میں تفصیل سےاظہارِ خیا ل کیا۔ اُن کی اِس دلچسپ اور بے تکلف گفتگو کے چند اقتباسات آپ بھی پڑھیئے، بلکہ چاہیں تو اُنہی کی آواز میں سنئیے۔
انٹرویو:
اردو کے ساتھ رشتہ کیسے جُڑا
’یونیورسٹی میں تو میں یونانی اور لاطینی زبانیں سیکھ رہا تھا۔ پھر کیمرج یونی ورسٹی میں تحقیق کے لیے میں نے قدیم یونان اور مشرقِ وسطیٰ کے تعلقات پر کام کرنا شروع کیا۔ اِس سلسلے میں، مجھے کئی زبانیں سیکھنی پڑیں۔مثال کے طور پر شامی اور عبرانی، وغیرہ۔ اِسی زمانے میں میرا چند پاکستانی اور ہندوستانی طلبا کے ساتھ ملنا جلنا رہا۔ یہ نوجوان وہاں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔
’ اُس زمانے میں مجھے ہندوستان اور پاکستان کے بارے بہت کم علم تھا۔ یہ بات ہےسنہ1965 کی۔ بہر حال، اُن سے باتیں کرتے کرتے مجھے اُن کی زبان سےبھی دلچسپی پیدا ہوگئی۔
’ ویسے بھی، غیر ملکی زبانیں سیکھنے سے مجھے فطری لگاوٴ ہے۔ مجھے اُن دوستوں کے ساتھ رہتے ہوئے سب سے زیادہ تعجب اِس بات پر ہوا کہ یہ لوگ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے تھے کوئی پنجابی، کوئی بنگالی، کوئی سندھی اور کوئی یوپی کا۔ مگر، یہ سب لوگ آ پس میں ایک ہی زبان میں باتیں کرتے تھے۔ ظاہرہے، یہ زبان اردو تھی۔ شوقیہ طور پر میں نے اردو کے کچھ الفاظ سیکھ لیے۔
’میں، اُن دنوں، اپنے روزگار کے بارے میں فکر مند تھا کہ کون سی زبانیں سیکھ کر اُس کے ذریعے میں ملازمت حاصل کر سکوں۔ ’اُنہی دنوں، میں نے ایک اشتہار دیکھا، جِس میں ہندوستانی زبانوں پر کام کرنے کی ایک اسامی نکلی تھی۔ میں نے درخواست دے دی ۔
’ انٹرویو سے پہلے، مجھے اردو کے محض چند الفاظ آتے تھے ، سو میں نے اپنے پاکستانی اور ہندوستانی دوستوں سے مشورہ کیا، سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے مجھے عمر خیام کی رباعی یاد کرا دی اور کہا کہ بس یہی سنا دینا۔
’خیر، میں انٹرویو دینے چلا گیا۔ وہاں بورڈ میں ایک خاتون شامل تھیں، جو ہندوستانی زبانوں کی صوتیات کی ماہر تھیں۔ اُنھوں نے مجھ سے انگریزی میں سوال کیا کہ کیا مجھے ہندوستانی زبان آتی ہے ، تو میں نے عمر خیام کی رباعی پڑھ دی، یہ سن کر وہ خاتون کہنے لگیں کہ آپ تو بہت اچھی اردو بول سکتے ہیں۔ میں نے کہا، جی ہاں، تھوڑی بہت آتی ہے۔ سو یہ ملازمت مل گئی اور میرا اردو سے رشتہ بندھ گیا۔
’یہاں، لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹدیز میں تقریباً چالیس برس تک اردو پڑھاتا رہا‘۔
شاہی ہندی: اور جب دہلی کے ایک ریستوران کے بیرے نے میتھیوز صاحب کی اردو سنی !
’اردو زبان سے مجھے بہت دلچسپی ہے اور اردو کی یہ خاصیت ہے کہ یہ شہروں کی زبان ہے، دہلی، لکھنوٴ اور حیدرآباد میں پروان چڑھی ۔ اِس زبان میں بہت تنوع ہے، جو ہندوستان کی دوسری زبانوں میں نہیں پایا جاتا۔
’اب ہندوستان میں اردو ذرا کم اور ہندی زیادہ ہوگئی ہے۔ پہلی بار، جب دہلی گیا تھا تو اردو میں لکھے سائین بورڈ نظر آتے تھے، مگر اب ایسا کم کم ہے۔
’لیکن، اِس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ میں ہندوستان جاکر اردو ہی میں بات چیت کرتا ہوں۔ ممبئی ہو یا مدراس ہر جگہ یہ زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ میں جب وہاں اردو بولتا ہوں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے ہندی زبان کہاں سے سیکھی۔
’ ایک سچٍا واقعہ سنیے: میں دہلی کے ایک ریستوران گیا اور وہاں بیرے سے بات کرنا شروع کی۔ اُسے بڑی حیرت ہوئی اور اُس نے پوچھا کہ آپ نے ہندی کہاں سے سیکھی ؟ میں نےکہا کہ میں تو دلٍی کا پرانا پاپی ہوں ۔ ممکن ہے کہ دوران گفتگو میں نے فارسی اور عربی کےالفاظ بھی استعمال کیے ہوں ۔ خیر، اُس نے میری باتیں سن کر کہا کہ آپ تو بہت شاہی ہندی بولتے ہیں، جِس کا دراصل مطلب اردو تھا‘۔
پچھلے برس، وہ ’پانچویں بین الاقوامی اردو کانفرنس‘ میں شرکت کےلیے نیو یارک آئے۔ وہاں اُن سے عائشہ تنظیم نے اردو کے ساتھ وابستگی کی کہانی پوچھی تو میتھیوز صاحب نے بڑے دل چسپ انداز میں اِس حادثاتی تعلق کا ذکر کیا۔
دورانِ گفتگو، اُنھوں نےاردو ادب اور زبان کےبارے میں تفصیل سےاظہارِ خیا ل کیا۔ اُن کی اِس دلچسپ اور بے تکلف گفتگو کے چند اقتباسات آپ بھی پڑھیئے، بلکہ چاہیں تو اُنہی کی آواز میں سنئیے۔
انٹرویو:
اردو کے ساتھ رشتہ کیسے جُڑا
’یونیورسٹی میں تو میں یونانی اور لاطینی زبانیں سیکھ رہا تھا۔ پھر کیمرج یونی ورسٹی میں تحقیق کے لیے میں نے قدیم یونان اور مشرقِ وسطیٰ کے تعلقات پر کام کرنا شروع کیا۔ اِس سلسلے میں، مجھے کئی زبانیں سیکھنی پڑیں۔مثال کے طور پر شامی اور عبرانی، وغیرہ۔ اِسی زمانے میں میرا چند پاکستانی اور ہندوستانی طلبا کے ساتھ ملنا جلنا رہا۔ یہ نوجوان وہاں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔
’ اُس زمانے میں مجھے ہندوستان اور پاکستان کے بارے بہت کم علم تھا۔ یہ بات ہےسنہ1965 کی۔ بہر حال، اُن سے باتیں کرتے کرتے مجھے اُن کی زبان سےبھی دلچسپی پیدا ہوگئی۔
’ ویسے بھی، غیر ملکی زبانیں سیکھنے سے مجھے فطری لگاوٴ ہے۔ مجھے اُن دوستوں کے ساتھ رہتے ہوئے سب سے زیادہ تعجب اِس بات پر ہوا کہ یہ لوگ ہندوستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے تھے کوئی پنجابی، کوئی بنگالی، کوئی سندھی اور کوئی یوپی کا۔ مگر، یہ سب لوگ آ پس میں ایک ہی زبان میں باتیں کرتے تھے۔ ظاہرہے، یہ زبان اردو تھی۔ شوقیہ طور پر میں نے اردو کے کچھ الفاظ سیکھ لیے۔
’میں، اُن دنوں، اپنے روزگار کے بارے میں فکر مند تھا کہ کون سی زبانیں سیکھ کر اُس کے ذریعے میں ملازمت حاصل کر سکوں۔ ’اُنہی دنوں، میں نے ایک اشتہار دیکھا، جِس میں ہندوستانی زبانوں پر کام کرنے کی ایک اسامی نکلی تھی۔ میں نے درخواست دے دی ۔
’ انٹرویو سے پہلے، مجھے اردو کے محض چند الفاظ آتے تھے ، سو میں نے اپنے پاکستانی اور ہندوستانی دوستوں سے مشورہ کیا، سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے مجھے عمر خیام کی رباعی یاد کرا دی اور کہا کہ بس یہی سنا دینا۔
’خیر، میں انٹرویو دینے چلا گیا۔ وہاں بورڈ میں ایک خاتون شامل تھیں، جو ہندوستانی زبانوں کی صوتیات کی ماہر تھیں۔ اُنھوں نے مجھ سے انگریزی میں سوال کیا کہ کیا مجھے ہندوستانی زبان آتی ہے ، تو میں نے عمر خیام کی رباعی پڑھ دی، یہ سن کر وہ خاتون کہنے لگیں کہ آپ تو بہت اچھی اردو بول سکتے ہیں۔ میں نے کہا، جی ہاں، تھوڑی بہت آتی ہے۔ سو یہ ملازمت مل گئی اور میرا اردو سے رشتہ بندھ گیا۔
’یہاں، لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹدیز میں تقریباً چالیس برس تک اردو پڑھاتا رہا‘۔
شاہی ہندی: اور جب دہلی کے ایک ریستوران کے بیرے نے میتھیوز صاحب کی اردو سنی !
’اردو زبان سے مجھے بہت دلچسپی ہے اور اردو کی یہ خاصیت ہے کہ یہ شہروں کی زبان ہے، دہلی، لکھنوٴ اور حیدرآباد میں پروان چڑھی ۔ اِس زبان میں بہت تنوع ہے، جو ہندوستان کی دوسری زبانوں میں نہیں پایا جاتا۔
’اب ہندوستان میں اردو ذرا کم اور ہندی زیادہ ہوگئی ہے۔ پہلی بار، جب دہلی گیا تھا تو اردو میں لکھے سائین بورڈ نظر آتے تھے، مگر اب ایسا کم کم ہے۔
’لیکن، اِس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ میں ہندوستان جاکر اردو ہی میں بات چیت کرتا ہوں۔ ممبئی ہو یا مدراس ہر جگہ یہ زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ میں جب وہاں اردو بولتا ہوں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے ہندی زبان کہاں سے سیکھی۔
’ ایک سچٍا واقعہ سنیے: میں دہلی کے ایک ریستوران گیا اور وہاں بیرے سے بات کرنا شروع کی۔ اُسے بڑی حیرت ہوئی اور اُس نے پوچھا کہ آپ نے ہندی کہاں سے سیکھی ؟ میں نےکہا کہ میں تو دلٍی کا پرانا پاپی ہوں ۔ ممکن ہے کہ دوران گفتگو میں نے فارسی اور عربی کےالفاظ بھی استعمال کیے ہوں ۔ خیر، اُس نے میری باتیں سن کر کہا کہ آپ تو بہت شاہی ہندی بولتے ہیں، جِس کا دراصل مطلب اردو تھا‘۔
No comments:
Post a Comment