۔
سنہ انیس سو چھیاسی میں گم ہو جانے والے ایک بھارتی بچے نے پچیس سال بعد گوگل ارتھ کی سیٹلائٹ کی تصویروں کی مدد سے اپنی ماں کو ڈھونڈ لیا ہے۔
آسٹریلیا کی ریاست ٹیزمینیا میں مقیم سارو کا کہنا ہے کہ وہ صرف پانچ برس کے تھے جب بھارت میں ایک ٹرین سٹیشن پر وہ اپنے بھائی سے بچھڑ گئے۔سارو نے بتایا کہ انہیں یاد ہے کہ وہ اپنے بھائی کی کھوج میں ایک ٹرین پر سوار ہوئے جو انہیں بھارت کے تیسرے بڑے شہر کلکتہ لے گئی۔
’میں بےحد ڈرا ہوا تھا اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔ تاہم میں نے لوگوں کو ڈھونڈنا شروع کیا اور ان سے سوالات پوچھنے شروع کر دیے۔‘
سارو کے بقول ’وہ بہت ہی خطرناک جگہ تھی۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی ماں باپ اپنے پانچ سالہ بچے کو کلکتہ کے گندے محلوں اور ٹرین سٹیشنوں میں اکیلے پھرتے دیکھنا چاہیں گے۔‘
تاہم ایسے میں سارو نے اکیلے رہنا سیکھ لیا اور انہوں نے بھیک مانگ مانگ کر گزارہ چلایا۔ ان کے بقول کچھ عرصہ ایسے گزرنے کے بعد انہیں ایک یتیم خانے نے اپنا لیے اور وہیں سے ان کی قسمت جاگی اور انہیں ایک آسٹریلوی جوڑی نے گود لے لیا۔
’میں یہ تسلیم کر چکا تھا کہ میں گم گیا ہوں اور میں اپنا گھر نہیں ڈھونڈ سکتا تاہم ایسے میں، میں نے سوچا کہ آسٹریلیا جانا ایک ذبردست بات ہوگی۔‘
اگرچہ وقت گزرتا گیا اور سارو آسٹریلیا میں اپنے نئے گھر میں رہنے لگے لیکن انہوں نے بتایا کہ ان کے دل میں اپنے پیدائشی خاندان کو ڈھونڈنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ تاہم ایسے میں انہوں نے گوگل ارتھ کا استعمال کرنا شروع کر دیا اور کرتے کراتے انہیں ان کے آبائی علاقے کھنڈوا کا نقشہ مل ہی گیا۔
سارو نے بتایا کہ گوگل ارتھ کی تصاویر میں انہیں وہ جگہیں بھی مل گئیں جہاں وہ بچپن میں کھیلا کرتے تھے (جیسا کہ ایک آبشار) تاہم اس دریافت کے بعد انہوں نے یہاں جانے کا فیصلہ کیا۔۔"
سارو نے بتایا کہ ان کے پاس پچپن کی اپنی ایک تصویر تھی اور انہیں اپنے گھر والوں کے نام بھی یاد تھے۔ تاہم ان کی مدد سے وہ اپنی ماں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
سارو کے بقول ’میں نے جب انہیں آخری مرتبہ دیکھا تھا تو ان کی عمر چونتیس برس تھی اور وہ ایک خوبصورت خاتون تھیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ عمر کے ساتھ وہ اس قدر بدل جائیں گی۔‘
سارو نے بتایا ’میرا ہاتھ تھام کر وہ مجھے اپنے گھر لے گئیں۔ وہ میرے سے کچھ نہیں کہہ پائیں۔ میرے خیال میں وہ بھی مجھے دیکھ کر اسی طرح سکتے میں چلی گئیں جیسے میں ان کو دیکھ کر چلا گیا تھا۔‘
No comments:
Post a Comment