سیلاب سے متاثرہ 25 لاکھ بچے، امداد کے منتظر
صوبہ سندھ میں تباہ کن بارشوں کے بعد آنے والے سیلابوں نے اس بار وہ تباہی مچائی ہے کہ اسے بیان کرنے کے لئے پتھر کا جگر چاہئے۔ سیلاب کاسب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جن معصوموں کو زندگی کا صحیح مفہوم بھی معلوم نہیں وہ پل پل موت کے بے رحم شکنجے سے پنجہ آزمائی کررہے ہیں۔ مجبور ، بے کس اور بے یارومددگار سیلاب سے متاثرہ بچوں کی تعداد دوچار ہزار نہیں بلکہ 25 لاکھ ہے
۔
بچوں کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ ان 25لاکھ بچوں میں بیشتر ایسے ہیں جنہوں نے پچھلے سال کے سیلابوں میں بہت سختیاں جھیلیں تھیں ۔ ابھی ان بچوں کی بحالی کا کام بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ اس سال پھراس قدرتی آفت نے لاکھوں بچوں کا مستقبل داوٴ پر لگادیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کہ صورتحال مزید خراب ہو امدادی کاموں میں مزید تیزی لانا ہوگی۔
صوبہ سندھ میں سیلاب کی تباہی اندازوں سے کہیں زیادہ ہوئی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پورے صوبے میں70 لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ ان 70 لاکھ افراد میں 25لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ سیلاب سے لاکھوں گھرانے بے گھر ہوگئے ہیں ۔ متاثرہ افراد پورے ملک میں بکھر چکے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کی بحالی اور امداد کے کاموں میں دیر لگ رہی ہے ۔
ضلع بدین کی رہائشی ایک خاتون عذرا بی بی نے وائس آف امریکہ کو بتایا: " بارش نے ہمارے گھروں کو تباہ کر دیا، ہمارے جانور بہہ گئے ، سبزیاں اور باغات اجڑ گئے ، کھیت بنجر ہوگئے ، ایسی تباہی و بربادی آئی ہے کہ کہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں۔ ابھی ہم لوگ بدین کے عارضی کیمپ میں مقیم ہیں ، یہاں پیٹ بھر کھانے کو روٹی نہیں ۔ ہم ایک ہی گھر کے آٹھ لوگ ہیں۔ جب سب کچھ پانی بہا لے گیا تو ہم نے اس کیمپ میں پناہ لی ۔ ادھر بھی چولہا جلانے کو جگہ نہیں، کھانا کیسے پکائیں ، نہ لکڑیاں ہیں نہ گھانس پھونس۔"
اس سال آنے والے سیلاب سے متاثرہ دوسرے لوگوں کی طرح عذرا بی بی اور اس کا 45 سالہ شوہر گلاب دین بھی دوسری مرتبہ سیلاب کا دکھ جھیل رہے ہیں۔ پچھلے سال بھی وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے تھے۔ ایک سال میں یہاں وہاں سے مدد لے کر اس نے جو کچھ مال متاع اس نے اکھٹا کیا تھاوہ سب بھی اس سیلاب میں بہہ گیا"۔2010ء کا سیلاب ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس میں چاول کی فصل تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی تھی۔ گلاب دین کا کہنا ہے " ابھی اسے پچھلے سال کے سیلاب کا دکھ بھی نہیں بھولا تھا کہ اس سال پھر سیلاب سے اس کے زخم ہرے ہوگئے۔"
سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان بچوں کو پہنچایا ہے۔ ان کا حال تو تباہ ہوا ہی مستقبل بھی محفوظ نہیں رہا۔ انہیں سب سے زیادہ صاف پانی کی کمی اور سینی ٹیشن کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب بچوں کو بہت سی خطرناک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یونیسیف واٹر ٹینکرز کے ذریعے ان بچوں تک پانی پہنچارہا ہے جبکہ سڑکوں کے اطراف بنے کیمپوں میں خوراک پہنچانے کا کام عالمی ادارہ خوراک انجام دے رہا ہے۔ اگلے مرحلے میں عالمی ادارے کے تعاون سے عارضی شیلٹرز میں تقریباً ایک ہزار اسکول کھولے جائیں گے تاکہ بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔
ضلع خیرپورکے رہائشی اور ایدھی فاوٴنڈیشن کے ایک رضاکار محمد خالد کا کہنا ہے " ابھی تک متاثرہ بچوں تک جو امداد پہنچی ہے وہ ناکافی ہے ۔ متاثرین کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت بھی دستیاب نہیں دیگر سہولیات اس کا تو ذکر ہی کیا!"
ادھر پاکستان میں سرگرم عمل امریکہ کی غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن کے ترجمان فارس قاسم نے اس نمائندہ کو بتیا کہ مسلسل دو سیلابوں نے کمر توڑ دی ہے۔ خاص طور پر بچوں کا بہت برا حال ہے ۔ متاثرہ بچے مناسب خوراک نہ ملنے کے سبب انتہائی لاغر ہوگئے ہیں۔ کچھ ہی ہفتوں کےبعد پاکستان میں سردی کا موسم شروع ہوجائے گا جو ان ہزاروں بچوں کے دکھوں میں مزید اضافے کاسبب بن سکتا ہے۔ چنانچہ انہیں آنے والے موسم کی سختیوں سے بچانے کے لیے جلدازجلد امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔
۔
بچوں کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ ان 25لاکھ بچوں میں بیشتر ایسے ہیں جنہوں نے پچھلے سال کے سیلابوں میں بہت سختیاں جھیلیں تھیں ۔ ابھی ان بچوں کی بحالی کا کام بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ اس سال پھراس قدرتی آفت نے لاکھوں بچوں کا مستقبل داوٴ پر لگادیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کہ صورتحال مزید خراب ہو امدادی کاموں میں مزید تیزی لانا ہوگی۔
صوبہ سندھ میں سیلاب کی تباہی اندازوں سے کہیں زیادہ ہوئی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پورے صوبے میں70 لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ ان 70 لاکھ افراد میں 25لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ سیلاب سے لاکھوں گھرانے بے گھر ہوگئے ہیں ۔ متاثرہ افراد پورے ملک میں بکھر چکے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کی بحالی اور امداد کے کاموں میں دیر لگ رہی ہے ۔
ضلع بدین کی رہائشی ایک خاتون عذرا بی بی نے وائس آف امریکہ کو بتایا: " بارش نے ہمارے گھروں کو تباہ کر دیا، ہمارے جانور بہہ گئے ، سبزیاں اور باغات اجڑ گئے ، کھیت بنجر ہوگئے ، ایسی تباہی و بربادی آئی ہے کہ کہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں۔ ابھی ہم لوگ بدین کے عارضی کیمپ میں مقیم ہیں ، یہاں پیٹ بھر کھانے کو روٹی نہیں ۔ ہم ایک ہی گھر کے آٹھ لوگ ہیں۔ جب سب کچھ پانی بہا لے گیا تو ہم نے اس کیمپ میں پناہ لی ۔ ادھر بھی چولہا جلانے کو جگہ نہیں، کھانا کیسے پکائیں ، نہ لکڑیاں ہیں نہ گھانس پھونس۔"
اس سال آنے والے سیلاب سے متاثرہ دوسرے لوگوں کی طرح عذرا بی بی اور اس کا 45 سالہ شوہر گلاب دین بھی دوسری مرتبہ سیلاب کا دکھ جھیل رہے ہیں۔ پچھلے سال بھی وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے تھے۔ ایک سال میں یہاں وہاں سے مدد لے کر اس نے جو کچھ مال متاع اس نے اکھٹا کیا تھاوہ سب بھی اس سیلاب میں بہہ گیا"۔2010ء کا سیلاب ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس میں چاول کی فصل تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی تھی۔ گلاب دین کا کہنا ہے " ابھی اسے پچھلے سال کے سیلاب کا دکھ بھی نہیں بھولا تھا کہ اس سال پھر سیلاب سے اس کے زخم ہرے ہوگئے۔"
سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان بچوں کو پہنچایا ہے۔ ان کا حال تو تباہ ہوا ہی مستقبل بھی محفوظ نہیں رہا۔ انہیں سب سے زیادہ صاف پانی کی کمی اور سینی ٹیشن کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب بچوں کو بہت سی خطرناک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یونیسیف واٹر ٹینکرز کے ذریعے ان بچوں تک پانی پہنچارہا ہے جبکہ سڑکوں کے اطراف بنے کیمپوں میں خوراک پہنچانے کا کام عالمی ادارہ خوراک انجام دے رہا ہے۔ اگلے مرحلے میں عالمی ادارے کے تعاون سے عارضی شیلٹرز میں تقریباً ایک ہزار اسکول کھولے جائیں گے تاکہ بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔
ضلع خیرپورکے رہائشی اور ایدھی فاوٴنڈیشن کے ایک رضاکار محمد خالد کا کہنا ہے " ابھی تک متاثرہ بچوں تک جو امداد پہنچی ہے وہ ناکافی ہے ۔ متاثرین کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت بھی دستیاب نہیں دیگر سہولیات اس کا تو ذکر ہی کیا!"
ادھر پاکستان میں سرگرم عمل امریکہ کی غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن کے ترجمان فارس قاسم نے اس نمائندہ کو بتیا کہ مسلسل دو سیلابوں نے کمر توڑ دی ہے۔ خاص طور پر بچوں کا بہت برا حال ہے ۔ متاثرہ بچے مناسب خوراک نہ ملنے کے سبب انتہائی لاغر ہوگئے ہیں۔ کچھ ہی ہفتوں کےبعد پاکستان میں سردی کا موسم شروع ہوجائے گا جو ان ہزاروں بچوں کے دکھوں میں مزید اضافے کاسبب بن سکتا ہے۔ چنانچہ انہیں آنے والے موسم کی سختیوں سے بچانے کے لیے جلدازجلد امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment