Monday, September 26, 2011

فرانس: نقاب کے قانون سے انکاری خواتین

بتیس سالہ فرانسیسی شہری ہندِ احمس اور ان کی سہیلی نجات نعیت علی فرانس کی پہلی دو خواتین ہیں جنھیں سرعام نقاب پہننے پر جرمانہ کیا گیا ہے۔
طلاق شدہ اور ایک بچے کی ماں ہندِ احمس کو اگرچہ عوامی مقام پر نقاب پہننے پر جرمانے کی سزا ملی ہے لیکن انھوں نے اس کو خوش آمدید کہا ہے۔
فرانس میں نقاب پوشی پر پابندی کے قانون کے خلاف چھ ماہ تک مہم چلانے کے بعد اب ہند احمس کو ایک ایسا پلیٹ فام ملا ہے جس کے تحت وہ اس پابندی کو چینلج کر سکتی ہیں۔
ہندِ احمس جمعہ کو جرمانے کی سزا کے خلاف اپنے حامیوں سمیت عدالتِ عظمیٰ کے سامنے پیش ہونگی۔
انھوں نے کہا کہ فرانس میں قانونی پروسیس کی تکیمل میں کئی ماہ اور ممکنہ طور پر کئی سال لگ سکتے ہیں لیکن اس راستہ پر چلتے ہوئے وہ پابندی کے خلاف یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت سے رجوع کر سکتی ہیں۔
آج کی قطعی رائے نہ صرف فرانس کی حکومت بلکہ یورپی کے دیگر ممالک بیلجئیم، اٹلی، آسٹریا، نیدرلینڈ اور سوئٹزرلینڈ کے لیے بھی مسائل کا سبب بنے گی، جہاں پر اسی قسم کی پابندی ممعتارف کرائی گئی ہے یا ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے
۔
ہندِ احمس کے والدین کوئی سخت گیر نظریہ رکھنے والے مسلمان نہیں ہیں، اور انھوں نے پہلی بار کوئی چھ سال پہلے نقاب پہننا شروع کیا ہے۔
احمس کا دعویٰ ہے کہ اپنے ایمان کو دوبارہ شناخت کرنے سے پہلے وہ ڈانس پارٹیز میں منی سکرٹ پہن کر جاتی تھیں اور پارٹیوں کو پسند کرتی تھیں۔
میں اپریل سے جہنم جیسی زندگی گزار رہی ہوں، مجھے زبانی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، میری سرکاری سہولیات تک رسائی ختم ہو کر رہ گئی ہے اور ہر روز مجھے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے لڑائی کرنا پڑتی ہے
ہند حمس
’ان کے والدین اعتدال پسند ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے انھیں نقاب پہننے پر مجبور کیا ہو، میں فرانس کے تمام قوانین کا احترام کرتی ہوں لیکن اس قانون کا نہیں۔‘
’میں اپریل سے جہنم جیسی زندگی گزار رہی ہوں، مجھے زبانی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، میری سرکاری سہولیات تک رسائی ختم ہو کر رہ گئی ہے اور ہر روز مجھے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے لڑائی کرنا پڑتی ہے۔‘
احمس کے مطابق انھیں بینکوں، دکانوں اور سرکاری دفاتر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، بس ڈرائیور بس میں سوار کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، روزگار نہیں ملتا ہے، اور گھر سے باہر نکلتے وقت اپنے ساتھ پینک الارم یا ہنگامی صورتحال سے آگاہ کرنے والا الارم اور مرچ والا سپرے رکھتی ہیں۔
’نقاب پر پابندی کے قانون کے ایک ہفتے کے بعد وہ وہ پرسکون انداز میں اپنی بیٹی کے ساتھ گلی میں جا رہی تھیں کہ ایک جوڑے سے ان کا سامنا ہوا، خاتون نے میری اور میرے مذہب کی تذلیل شروع کی دی جو مجھ سے برداشت نہیں ہوئی تو میں نے جواب دینا شروع کیا تو اس کے خاوند نے میرے چہرے پر گھونسا مارا اور سارے واقعے کے دوران میری بیٹی میری ساتھ کھڑی تھی۔‘
فرانس میں نقاب پہننے پر پابندی کا قانون اپریل میں اکثریت رائے سے منظور ہوا تھا اور ملک میں الیکشن کے دوران یہ مقبول موضوع تھا۔
نقاب پر پابندی یورپ کے دوری ممالک میں بھی مقبول ہوئی ہے اور اس کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مغربی معاشرے میں ڈھلنے کے بنیادی حصوں میں سے ایک اپنا چہرہ دکھانا ہے۔
فرانس میں اس بل کی منظوری کے بعد سے ان کو نافذ کرنا کافی ہنگامہ خیز ثابت ہو رہا ہے اور اب تک پولیس نے ایک سو خواتین کو روکا ہے اور ان میں سے کسی کو بھی ایک سو پچاس یورو کا زیادہ سے زیادہ جرمانہ نہیں کیا گیا ہے اور ان میں سے دس کے قریب کیسز عدالتوں میں ہیں۔
پولیس کی یونین ایس جی پی کی رکن نکلولس کومیت کا کہنا ہے کہ’پولیس کے پاس نقاب پوش خواتین کو تلاش کرنے علاوہ دیگر بہتر کام کرنے والے ہیں۔‘
’ کسی نقصان کا ذکر بغیر اس کا تعلق پولیس کے مخصوص برادریوں کے ساتھ تعلقات پر ہے۔‘
میرے خیال میں میرے ساتھی مزید کوئی مشکل پیدا کیے بغیر ذہانت سے اس قانون پر عمل درآمد کرانے کے چینلج سے نمٹ سکتے ہیں۔‘
لیکن عام طور پر جن خواتین کو ہم روکتے ہیں تو وہ قانون کا احترام کرتے ہوئے چہرے سے نقاب ہٹا دیتی ہیں اور ان میں سے بہت کم ہی ایسی ہیں کہ جنھوں نے اس کے خلاف رپورٹ کی ہو۔

کنزا نے آئندہ صدارتی انتخاب میں امیدوار کے طور پر حصہ لینے کا اعلان کیا ہے
فرانس میں نقاب کے قانون کے خلاف ایک سرگرم سماجی کارکن اور تنقید نگار کنزا ڈرائڈر کا کہنا ہے کہ وہ اس ’نرمی نرمی‘ والے نقطہ نظر کو نہیں مانتی ہیں۔
ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے طور پر پابندی کے قانون کو قانونی طریقے کی بجائے بیلٹ کے ذریعے چیلنج کریں گی۔
انھوں نے آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ ان مردوں کے مقابلے میں کھڑی ہونگی جنھوں نے پابندی کو وضع کیا اور اس کی حمایت کی۔
اس قانون کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے خواتین کو گھروں میں قید کر دیا گیا ہے اور جن نے اس کی پشت پناہی کی ہے ان کو ان خواتین کے ساتھ لا کھڑا کیا جائے گا جن کو اس کے نتیجے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم کنزا ڈارائڈر کواس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس میں سب سے پہلے پانچ سو میئرز کی حمایت درکار ہو گی جو کہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے۔
اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو اچھے خاصے بحث و مباحثے کے امتحان سے گزرنا ہو گا اور اس میں بھی بیک فائر یا الٹا نقصان پہنچنے کا چیلنج بھی موجود ہے۔
نقاب پہن کر سٹیج پر آنا ان ووٹرز کے لیے غصے کا باعث بن سکتا ہے جنھوں نے اس کی پابندی کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی تھی اور ان میں سے بعض کا جھکاؤ نئے سرے سے ابھرنے والے انتہائی دائیں بازو کی جانب ہو سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment