Monday, June 13, 2011

ہیلتھ کارنر

ای کولائی وائرس سے اٹھارہ ہلاک

سبزیاں
جرمنی سفر کرنے والے اشخاص کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ جرمنی میں کچے کھیرے، سلاد اور ٹماٹر کھانے سے گریز کریں
صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ای کولائی وائرس پھیلنے کی وجہ ایک ایسا نیا جراثیم ہے جو انسانی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور اس سے انسانی جان کوسنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
ای کولائی سے متاثر ہونے والے اشخاص انتہائی مہلک پیچیدگیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس سے خونی پیچش اور پیشاب کے راستے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے۔
ای کولائی وباء ابھی تک زیادہ تر جرمنی تک محدود ہے جہاں اس سے ایک ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے سترہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور چار سو ستر جان لیوا صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ سویڈن میں ایک شخص ای کولائی وائرس سے ہلاک ہو ا ہے۔
ای کولائی جراثیم کے سامنے آنے کے بعد کہا گیا تھا کہ اس کے پھیلنے کی وجہ ہسپانیہ سے برآمد کیے جانے والے کھیرے ہیں۔ سپین سے ہزراوں ٹن کھیرے یورپ میں برآمد کیے جاتے ہیں۔
سپین نے دھمکی دی ہے کہ اگر غیر محتاط بیانات کی وجہ سے اس کی سبزیوں کی برآمد متاثر ہوئی تووہ یورپی یونین سے ہرجانے کا تقاضہ کر سکتا ہے۔ ماہرین اب ہسپانیہ کے کھیروں کو ای کولائی کی وجہ بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔
تحقیق کار ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے ہیں کہ کھیرے کس مرحلے پر ای کولائی وائرس سے آلودہ ہوتے ہیں۔ جرمنی کے علاوہ ای کولائی انفیکشن کے کیس برطانیہ، ڈنمارک ، فرانس، ہالینڈ، سویڈن میں بھی سامنے آئے ہیں۔
روس نے یورپی یونین سے سبزیوں کی درآمد فل الفور روک دیا ہے اور کہا ہے یورپ سے برآمد ہونے والی ہر سبزی کو تلف کر دیا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق ای کولائی جراثیم انسانی جسم میں داخل ہو کر خون اور گردے مثاتر کرتے ہیں جس سے انسانی جان کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
برطانیہ میں ای کولائی کے تین کیس سامنے آئے ہیں۔ تینوں اشخاص جرمنی کا دورہ کر کے واپس برطانیہ لوٹے تھے۔
عالمی ا دارہ صحت نے کہا کہ یہ جراثیم پہلے کبھی بھی وباء کی شکل میں نہیں پھیلا تھا۔ یہ ای کولائی وباء ابھی تک زیادہ تر جرمنی تک محدود ہے۔
جرمنی میں ایک ای کولائی کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے والے رابرٹ کوچ ا نسٹیوٹ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ای کولائی کی وباء کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔
برطانیہ میں جرمنی سفر کرنے والے اشخاص کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ جرمنی میں کچے کھیرے، سلاد اور ٹماٹر کھانے سے گریز کریں۔

No comments:

Post a Comment