Friday, June 3, 2011

مضامین

ساڑھے آٹھ کھرب خسارے کا بجٹ

پاکستان کی حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال سنہ دو ہزار گیارہ اور بارہ کے لیے پچیس کھرب چار ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جو کہ رواں سال کے بجٹ سے بارہ اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہے۔
کلِک دفاعی بجٹ میں دس فیصد اضافہ
تاہم بجٹ دستاویز میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کا کل حجم ستائیس کھرب سڑسٹھ ارب روپے بتایا گیا ہے جبکہ دستاویز کے مطابق مجموعی مالی خسارہ سات کھرب چوبیس ارب روپے ہوگا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں یہ بجٹ پیش کیا۔ یہ ان کا بطور وزیرِ خزانہ دوسرا جبکہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کاچوتھا بجٹ ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی زیرِصدارت کابینہ کے خصوصی اجلاس میں اس بجٹ کی منظوری دی گئی۔
ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ میں سات کھرب بیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے تین کھرب روپے وفاقی جبکہ چار کھرب بیس ارب روپے صوبائی ترقیاتی بجٹ کے ہوں گے۔ آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں ترپن جبکہ صوبائی ترقیاتی بجٹ میں قریباً باسٹھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
اس بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے چار کھرب پچانوے ارب اکیس کروڑ پچاس لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ رواں سال کے بجٹ سے پچاس ارب ستاون کروڑ پچاس لاکھ روپے یا قریباً گیارہ اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہیں۔
وفاقی وزیر عبدالحفیظ شیخ نے جمعہ کو بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس بجٹ میں مجموعی وفاقی خسارے کا تخمینہ نو کھرب پچھہتر ارب روپے لگایا گیا تاہم این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے تخمینہ شدہ صوبائی سرپلس کی مد میں ایک سو پچیس ارب روپے جانے سے مجموعی مالی خسارہ آٹھ کھرب پچاس ارب روپے ہوگا جو کہ جی ڈی پی کا چار فیصد ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق جاری اخراجات کا تخمینہ قریباً تئیس کھرب پندرہ ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ رواں مالی سال سے ایک فیصد زیادہ ہیں جبکہ ٹیکس کی وصولی کا تخمینہ انیس کھرب باون ارب اٹھارہ کروڑ بیس لاکھ روپے لگایا گیا ہے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں تیئس فیصد زائد ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ میں سات کھرب تیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے تین کھرب روپے وفاقی جبکہ چار کھرب تیس ارب روپے صوبائی ترقیاتی بجٹ کے ہوں گے۔ آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں ترپن جبکہ صوبائی ترقیاتی بجٹ میں قریباً باسٹھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
اس بجٹ میں مجموعی وفاقی خسارے کا تخمینہ نو کھرب پچھہتر ارب روپے لگایا گیا تاہم این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے تخمینہ شدہ صوبائی سرپلس کی مد میں ایک سو پچیس ارب روپے جانے سے مجموعی مالی خسارہ آٹھ کھرب پچاس ارب روپے ہوگا جو کہ جی ڈی پی کا چار فیصد ہے۔
وزیرِ خرانہ نے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں پندرہ فیصد اضافے جبکہ انکم ٹیکس میں چھوٹ کی حد ساڑھے تین لاکھ روپے تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس چھوٹ کے نتیجے میں اب انتیس ہزار روپے ماہانہ آمدن والے پاکستانی شہری انکم ٹیکس سے مسثتنٰی ہوں گے۔
بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے کم کر کے سولہ فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے تحت صحت اور تعلیم کی وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی کے باوجود وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے دو ارب چونسٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ تعلیمی خدمات کے لیے انتالیس ارب اکیاون کروڑ تیس لاکھ روپے رکھے گئے ہیں اور ان میں سے انتیس ارب روپے اعلٰی تعلیمی امور اور خدمات پر خرچ ہوں گے۔
نامہ نگار اعجاز مہر کے مطابق بجٹ کی تقریر شروع ہونے سے قبل ہی حزبِ مخالف نے شدید نعرے بازی شروع کردی۔ سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی جو یہ تقریر براہِ راست دکھا رہا تھا نے کچھ دیر کے لیے نشریات کو روک دیا۔
بجٹ سیشن شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے وزیر خزانہ کی نشست کے سامنے نعرے بازی کی۔ انہوں نے ’ڈاکو راج نامنظور‘، ’کرپٹ حکومت نامنظور‘ جیسے نعرے لگائے۔ موجودہ حکومت کا یہ چوتھا بجٹ ہے اور یہ پہلی بار ہے کہ بجٹ سیشن میں اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی ہے۔
بجٹ اجلاس سے قبل قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکڑ فہمیدہ مرزا کی زیرِ صدارت ایوان کی کاروباری کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں مسلم لیگ نون کے کسی نمائندے نے شرکت نہیں کی۔
اجلاسں میں طے پایا کہ چھ جون سے چودہ جون تک بجٹ پر بحث ہو گی اور اجلاس کی کارروائی پیر سے سنیچر تک ہو گی جبکہ چوبیس جون کو بجٹ منظور کیا جائے گا۔ ایوان کی کاررباری کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ بجٹ سیشن کے دوران وقفہ سوالات اور قانون سازی معطل رہے گی۔ البتہ توجہ دلاؤ نوٹسز پر معمول کے مطابق کارروائی ہو گی۔

No comments:

Post a Comment