سلیم شہزاد کی کہانی
اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے صحافی سلیم شہزاد جن کی گمشدگی کے دو دن بعد ان کی لاش منڈی بھاؤ الدین کی ایک نہر سے برآمد ہوئی آئی ایس آئی کے خلاف ماضی میں کئی خبریں فائل کر چکے تھے لیکن ان کی ہلاکت سے چند دن قبل ان کی جو خبر ایشیا ٹائمز میں شائع ہوئی وہ پی این مہران کراچی پر دہشت گردوں کے حملوں کے بارے میں تھی۔
اس سٹوری میں انھوں نے دعوی کیا تھا کہ دہشت گردوں نے چند قیدیوں کی رہائی پر نیوی کے حکام سے جاری مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں پہلے نیوی کی بسوں پر دو حملے کیے اس کے بعد انھوں نے پی این ایس مہران پر حملہ کیا اور دو انتہائی قیمتی جہازوں کو تباہ کر دیا۔سلیم شہزاد کی جس تصویر سے شناخت کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ہلاک کیے جانے سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
سلیم شہزاد کی گمشدگی کے بعد ان کی بیوی نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ علی دایان حسن کو فون کرکے ان کی گمشدگی کے بارے میں آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سلیم شہزاد نے انھیں ہدایت کی تھی اگر انھیں کچھ ہوجائے تو وہ علی دایان حسن کو مطلع کریں۔
علی دایان کے مطابق سلیم شہزاد کافی عرصے سے خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ علی دایان نے مزید کہا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انھیں آئی ایس آئی نے ہی اغواء کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کو چند رابطہ کاروں نے بتایا تھا کہ سلیم شہزاد آئی ایس آئی کی حراست میں ہیں۔ ان رابطہ کاروں کو براہ راست ایجنسی نے بتایا تھا کہ انھیں آئی ایس آئی ہی نے اٹھایا تھا۔
علی دایان نے مزید کہا کہ اسلام آباد کے ایک انتہائی حساس علاقے سے آئی ایس آئی ہی ایک شخص کو اس کی گاڑی سمیت ایسے غائب کر سکتی ہے کہ اس کا سراغ ہی نہ ملے۔
ہیومن رائٹس واچ کو بتایا گیا کہ شہزاد پیر کی رات تک گھر پہنچ جائیں گے۔
علی دایان نے کہا کہ انھیں بتایا گیا تھا کہ پہلے شہزاد کا موبائل فون بحال کر دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے گھر والوں سے بات کر سکیں اور اس کے بعد وہ واپس پہنچ جائیں گے۔
منگل کی دوپہر تک جب سلیم شہزاد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا تو علی دایان کو ان کا ایک پرانا ای میل یاد آیا جو انھوں نے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار دس کو بھیجا تھا۔ اس ای میل کے بارے میں سلیم شہزاد نے کہا تھا کہ ان کی گمشدگی کی صورت میں اس ای میل کو جاری کر دیا جائے۔
اس ای میل میں سلیم شہزاد نے ان کو لاحق خطرات کے بارے میں بات کی تھی۔
ہویمن رائٹس نے کہا ہے کہ انہوں نے سلیم شہزاد کی گمشدگی کے بارے میں حکومت پاکستان سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن حکومت نے اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دیا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں سلیم شہزاد کو ایک دن قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ پر بات کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے ہیڈکواٹر میں طلب کیا گیا۔
ایشیا ٹائمز میں شائع ہونے والی متعلقہ رپورٹ میں سلیم شہزاد نے کہا تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان کے کمانڈر ملاء برادر کو مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے خاموشی سے رہا کر دیا ہے۔
سلیم شہزاد کی ای میل میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ہیڈکواٹر میں ان سے بحریہ کے دو اہلکاروں ریئر ایڈمرل عدنان نواز اور کماڈور خالد پرویز نے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں سلیم شہزاد کو بتایا گیا کہ آئی ایس آئی نے ایک دہشت گردو کو گرفتار کیا ہے جس کے پاس سے ڈائری اور ٹیلی فون نمبروں کی ایک فہرست برآمد ہوئی ہے اور اگر ان کا نام اس فہرست میں شامل ہوا تو انھیں آگاہ کر دیا جائے گا۔
علی دایان حسن نے کہا کہ اس بیان کو ایک دھمکی قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس انداز میں یہ بیان جاری کیا گیا وہ دھمکی ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ شہزاد کے مطابق آئی ایس آئی سے ان کی باقی ملاقات انتہائی خوشگوار اور بردرانہ ماحول میں ہوئی۔
اس ای میل میں سلیم شہزاد نے مزید کہا کہ آئی ایس آئی کے مذکوراہ افسران ان سے پوچھتے رہے کہ ان کی سٹوری میں دی گئی معلومات انھیں کس نے فراہم کی۔
شہزاد کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے ذرائع کا نام لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ایک خفیہ اہلکار نے انھیں یہ معلومات فراہم کی تھی اور بعد میں طالبان نے اس کی تصدیق کی تھی۔
شہزاد کے مطابق انھیں اپنی خبر کی تردید کرنے کو کہا گیا لیکن انھوں نے آئی ایس آئی کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
سلیم شہزاد کے ذرائع ابلاغ کے دوستوں اور ساتھیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی نے ان کے ذرائع کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے انھیں اٹھایا تھا۔
No comments:
Post a Comment