Tuesday, April 12, 2011

شاہین نما چیل!

آج میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ اب تک میں نے میڈیا کی آزادی کے حق میں جو کچھ لکھا وہ میرے دل کی آواز نہیں۔ حقیقتاً مجھے آج کا آزاد میڈیا نہیں بلکہ کل کا پابند میڈیا دوبارہ چاہئیے!
وہ ایوب خانی زمانہ چاہئیے جب پاکستان پر پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈیننس کی تلوار لٹکتی تھی اور جس رسالے یا اخبار پر اس تلوار کا وار ہوتا اسے گویا عوام الناس کی جانب سے حق گوئی کا سرٹیفکیٹ مل جاتا۔ اس آرڈیننس کے تحت جو صحافی گرفتار ہوتا وہ کرگسوں کے مجمع میں باز کی طرح نمایاں ہوجاتا۔ چاہے میاں افتخار الدین ہوں کہ مظہر علی خاں کہ نثار عثمانی کہ شورش کاشمیری یا ان جیسے بہت سے محترم نام ۔۔ یہ سب صحافت کے اًسی دورِ جبریہ کی دین ہیں۔
مجھے بھٹو کا زمانہ بھی آزادیِ صحافت کے اعتبار سے قابلِ رشک لگتا ہے۔ کم از کم حکومتِ وقت منافقت سے کام نہیں لیتی تھی۔ کھلم کھلا ناپسندیدہ رسالوں اور اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ کئے جاتے تھے اور ایڈیٹرز جیل میں ڈال دیے جاتے۔ نہ حکومت انہیں خریدنے میں خاص دلچسپی لیتی اور نہ ہی وہ فروخت ہونے کی پیش کش کرتے تھے۔
مجھے تو آج کے مقابلے میں جنرل ضیا الحق کا دور بھی آزادیِ ابلاغ کے اعتبار سے زیادہ بہتر نظر آ رہا ہے۔ کم ازکم یہ تو معلوم تھا کہ حق گوئی پر کوڑے پڑ سکتے ہیں۔ لوگ یہ تو جانتے تھے کہ آج کے اخبار میں کتنی جگہیں سنسر کے سبب خالی چھوٹ گئیں۔ محمد علی جناح کے کون کون سے اقوال اور اقبال کے کون سے اشعار حکومت کو پسند یا ناپسند ہیں۔ یہ بات کہیں بھی شائع ہوئے بغیر اکثر لوگ جانتے تھے کہ جنرل ضیا اپنے خطاب میں اعوذ باللہِ من الشیطن الرجیم کیوں نہیں پڑھتے۔ صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم پر کیوں اکتفا کرتے ہیں؟
آج نہ کسی چینل اور اخبار کے پاؤں میں زنجیر ہے نہ کسی صحافی کے قلم اور زبان پر تالا۔ پھر بھی بلوچستان ، سوات اور اچھے جہادیوں وغیرہ پر کھل کے گفتگو اور ادارتی کرپشن کی بلا امتیاز تحقیق کی کوشش کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے موضوعات کے اردگرد خاردار خاموشی کی باڑھ ہے اور گیٹ پر ایک چھوٹا سا بورڈ بھی۔
’ باڑھ اپنی ذمہ داری پر پھلانگئیے ‘
کتنا پرسکون ابلاغی زمانہ تھا۔ صرف ایک ہی ٹی وی چینل تھا اور وہ بھی سرکاری۔ ہر محمود و ایاز کے لیے ایک ہی چینل۔۔ آج چالیس سے زائد آزاد چینل ہیں لیکن صرف شہری مڈل کلاس اور ان کی دلچسپی کے موضوعات کے لیے۔ اور کوئی نہیں جانتا کہ ان میں سے کتنے چینل سرکاری، درباری یا عسکری نہیں ہیں؟ جو ادارے اور مالکان آزادیِ صحافت کی بڑھ بڑھ کے دہا ئی دیتے ہیں ان کے کارکنوں پر ہی سب سے زیادہ پیشہ ورانہ، اشتہاری اور کارپوریٹ دباؤ بھی ہے۔ انفوٹینمنٹ نے ٹیلی ویژن کو ٹنل ویژن کر ڈالا ہے۔
کبھی صحافی کنگال تھا اور قلم زرخیز۔ آج صحافی ہرا بھرا ہے تو قلم بانجھ ۔۔۔ پہلے صحافی محض پابندِ سلاسل ہوتا تھا۔ آج کے آزاد دور میں غائب ہوجاتا ہے۔
پہلے حکومت اور حساس و غیر حساس ادارے بتاتے تھے کہ فلاں فلاں علاقے اور موضوعات ناقابلِ دست اندازیِ صحافت ہیں۔ آج کوئی کسی کو خبردار نہیں کرتا۔ پلاٹ، دورے، عمرے، سپانسرڈ حج، ایکسکلوسیو سچ اور آنکھ کا اشارہ ہی کافی ہے۔
آج نہ کسی چینل اور اخبار کے پاؤں میں زنجیر ہے نہ کسی صحافی کے قلم اور زبان پر تالا۔ پھر بھی بلوچستان ، سوات اور اچھے جہادیوں وغیرہ پر کھل کے گفتگو اور ادارتی کرپشن کی بلا امتیاز تحقیق کی کوشش کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے موضوعات کے اردگرد خاردار خاموشی کی باڑھ ہے اور گیٹ پر ایک چھوٹا سا بورڈ بھی۔
’ باڑھ اپنی ذمہ داری پر پھلانگئیے ‘
چنانچہ ابلاغی بھیڑیں ادھر اًدھر کے موضوعات پر منہ مار کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔
جب پاکستان میں پہلے پچاس برس کے دوران صحافت اور قلم پابہ زنجیر تھے تو پچاس سے کم صحافی اور ابلاغی کارکن ریاستی، ادارتی یا گروہی تشدد کے سبب ہلاک ہوئے۔ مگر پچھلے چودہ برس کے آزاد میڈیائی دور میں ڈیڑھ سو سے زائد میڈیا پرسنز کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تو کیا وہ دور اچھا تھا جب کوے الگ اور باز الگ سے جانے جاتے تھے یا یہ دور اچھا ہے جب چیلوں کی ایک کثیر تعداد کو شاہین کے میک اپ میں فضا میں اچھال دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment