Saturday, April 9, 2011

پاکستان: مضبوط معاشرہ کمزور حکومت

’پاکستان: بحرانی ریاست سے آگے‘
کتاب میں سب ہی مضمون بالکل نئے ہیں
ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پاکستان ایک مضبوط معاشرے اور کمزور حکومت کا نام ہے۔
وہ اپنے تالیف کے اجرا کے پر خطاب کر رہی تھیں۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیوسٹی پریس پاکستان نے’پاکستان: بحرانی ریاست سے آگے‘ کے نام سے شائع کی ہے۔
کتاب میں شامل مضامین لکھنے والوں میں خود ملیحہ لودھی کے علاوہ عائشہ جلال، اکبر احمد، محسن حامد، شجاع شجاع نواز، سعید شفقت، زید حیدر، زاہد حسین، عشرت حسین، میقال احمد، مدثر مظہر ملک، زید اللہ داد، فیروز حسن خان، منیر اکرم، احمد رشید، سید رفعت حسین، شانزہ خان اور معید یوسف شامل ہیں۔
عام طور پر اس طرح کے انتخاب ایسے مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں جو پہلے سے شائع ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کی تالیف کرنے والا انھیں موضوع کے اعتبار سے جمع کرتا ہے۔
تبدیلی ہم میں اور ہمارے اندر آنی چاہیے، یہ کام کوئی اور آ کر نہیں کرے گا
ڈاکٹر ملیحہ لودھی
لیکن اجرا سے خطاب کرنے والے مقررین کی باتوں سے یہ بات سامنے آئی کہ کتاب میں شامل تمام مضامین نئے ہیں اور ان تمام ماہرین اور دانشوروں کو یہ مضامین لکھنے کی تحریک ملیحہ لودھی نے ہی دی ہے اور یہ کتاب اسی لیے ان کی تالیف ہے۔
ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ ’ہم پاکستانیوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا چاہیے اور اسے باہر والوں پر نہیں چھوڑنا چاہیے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ امید کیا ہے تو میرا خیال یہ ہے کہ قومیں اپنی امیدیں خود پیدا کرتی ہیں اور ایک بار نہیں کئی بار ہم نے ثابت کیا ہے ہم ایک زندہ قوم ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نمائندگی کا نظام تبدیل کریں نہیں تو اسی طرح مایوس ہوتے رہیں گے۔
ملیحہ لوھی نے اس بات پر زور دیا کے تبدیلی ہم میں اور ہمارے اندر آنی چاہیے، یہ کام کوئی اور آ کر نہیں کرے گا۔
اس کتاب کا پبلشر امینہ سید کو کہا بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اس کتاب کو شائع کرنے والے ادارے آکسفورڈ یونیوسٹی پریس او یو پی کی منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔
ڈاکٹر عشرت حسین
’گورنس کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی اداروں کو بہتر اور مؤثر بنانے کی ضرورت ہے‘
امینہ سید نے اجرا کی تقریب سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’کتاب میں جن سترہ ماہرین نے مضامین لکھے ہیں وہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ہیں اور انھوں نے سیاسی، معاشی، تعلیمی، سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی، بڑی طاقتوں کے مفادات و کردار اور ان عوامل کا بھی جائزہ لیا ہے جو اس ملک کی تقدیر کو اس شکل دیتے ہیں‘۔
انھوں نے ملیحہ لودھی کا تعارف بھی کرایا جو یقیناً تقریب میں موجود اکثر لوگوں کے لیے یقیناً اضافی تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر ملیحہ نہ صرف دو انگریزی اخباروں: مسلم اور دی نیوز کی مدیر رہی ہیں بلکہ دو بار امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے فرائص بھی انجام بھی دے چکی ہیں۔ وہ تخفیف اسلحہ پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے مشاورتی بورڈ میں بھی شامل رہی ہیں اور لندن سکول آف اکنامکس میں تدریس کے ساتھ واشنگٹن کے ووڈرو ولسن سینٹر میں ہارورڈ یونیورسٹی کی فیلو بھی رہی ہیں‘۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر اور خود اپنی سیاسی جماعت کے بانی جاوید جبار نے کہا کہ ’انھیں اس کتاب میں محسن حامد کا مضمون خاص طور پر پسند آیا ہے۔ یہ مضمون پاکستان میں اپنی بقا کے لیے پائے جانے والے عزم کے بارے میں ہے اور مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ وہ بھی میری طرح اس بات پر یقین رکھتے ہیں کے پاکستان اپنی بقا کو کوششوں میں کامیاب ہو گا‘ ۔
ان سے پہلے پاکستان کے سٹیٹ بنک کے سابق گورنر اور اب انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عشرت حسین نے تقریب سے خطاب کیا۔
ڈاکٹر عشرت نے خود بھی کتاب کے لیے ایک مضمون ’ری ٹولنگ انسٹیٹیوشن‘ کے عنوان سے لکھا ہے جس کے معنی اداروں اور ان کے کردار کی نئی تشکیل بھی لیے جا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب پاکستان میں قدرتی گیس کی دریافت ہوئی تو اس وقت اس ذخائر کا تخمینہ بتیس ارب کیوبک فٹ لگایا گیا تھا اور ان ذحائر سے پاکستان کو درکار توانائی کی پچاس فیصد ضروریات پوری کی جا سکتی تھیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گورنس کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی اداروں کو بہتر اور مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کو ربر سٹیمپ نہیں ہونا چاہیے اور آڈیٹر جنرل کو معمولی معمولی مالی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی بجائے یہ بتانا چاہیے کہ دو سو پچاس ارب روپے کہاں چلے جاتے ہیں‘۔
ڈاکٹر عشرت نے اس معاملے کی مزید تفصیل نہیں بتائیں تاہم انھوں نے کہا کہ محتسب کو لوگوں کی شکایات دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن کو آزاد و خود مختار ہونا چاہیے، قومی احتساب بیورو کو کسی کے ماتحت ہونے کی بجائے مکمل طور پر غیر جانبدار اور صدر و وزیراعظم کی مداخلت سے آزاد ہونا چاہیے۔
کتاب کے مضامین لکھنے والے سب لوگ اردو پڑھنے والی اکثریت کے لیے ضرور کچھ اجنبی ہو سکتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ اردو پڑھنے والوں ان لوگوں کی تعداد انگریزی پڑھنے والے ان لوگوں سے کم ہے جو اس طرح کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مضمون نگاروں کی اکثریت انہی مسائل پر اردو میں لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ اگر وہ دونوں زبانوں میں بات کرنے کی اہمیت کو محسوس کرتے تو شاید انھیں بہت سی شکایات نہیں ہوتیں۔

No comments:

Post a Comment